خبرنامہ

دہشت گردی کا عفریت

دو روز قبل افغانستان کی سرحد کے قریب خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر میں فوجی قافلے پر دہشت گردوں کے حملے میں آٹھ فوجی جوان شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔پاک فوج کا یہ قافلہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک کارروائی کے بعد واپس لوٹ رہا تھا۔ اس سے ایک روز قبل بنوں میں پولیس کی ایک چوکی پر مسلح افراد نے حملہ کرکے سات اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ کوئی ہفتہ عشرہ قبل کوئٹہ ریلوے اسٹیشن میں ہونے والے خود کش دھماکے میں 27 افراد شہید کردیے گئے تھے۔ رواں ماہ میں بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں 34 فوجی افسر و جوان شہید ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کا یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا، اور ایک کے بعد دوسرا افسوسناک سانحہ سامنے آرہا ہے۔
ملک میں دہشت گردی کے حالیہ پے در پے واقعات نے ہر محب وطن شہری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان دہشت گردانہ حملوں میں سکیورٹی فورسزکے درجنوں جوانوں کے ساتھ عام شہری بھی نشانہ بنے ہیں، مجھ جیسا ہر حساس آدمی ہمیشہ کی طرح اس اہم اور سنگین قومی مسئلے پر سوچنے پر مجبور ہے۔ ہماری مسلح افواج نے ملک میں ایک لمبے عرصے سے جاری دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنے کے لیے مختلف آپریشنز کیے ہیں جو امن کے قیام میں معاون ثابت ہوئے۔ بڑی حد تک ملک سے خارجی دہشت کردوں کا صفایا کردیا گیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے چند اندرونی سہولت کاروں نے یہ دروازہ پھر سے کھول دیا جس کے نتیجے میں پاک فوج کے جوان ملک میں قیام امن کے لیے روزانہ کی بنیاد پر شہادتیں دے رہے ہیں۔ خارجی دہشت گرد مسلح افواج پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ہمارے فوجی جوان اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا اور افغانستان کی سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گرد امریکی اسلحے استعمال کرتے ہیں، اس حوالے سے بھی واضح شواہد سامنے آئے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی دستیاب ہے، جس سے خطے کی سلامتی کو شدید نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا، پاکستانی سیکورٹی فورسز نے جن دہشت گردوں کو ہلاک کیا، ان کے پاس سے امریکی ساختہ اسلحہ برآمد ہوا، پاکستان میں ایک مخصوص گروہ نے اس اہم ایشو پر بھی ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ مسلسل ٹی ٹی پی کی حمایت کررہے ہیں، البتہ مختلف حیلے بہانوں سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کا ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلق نہیں ہے،لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ بلوچستان میں شرپسندوں کے گروہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں امریکی اسلحہ استعمال کررہے ہیں، اسلحے کا غیر قانونی کاروبار عروج پر ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ افغانستان سے ہی دہشت گردوں کو امریکی اسلحہ مل رہا ہے۔ افغان حکومت کو معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد کہاں پر ہیں اور ان کے مراکز کہاں کہاں قائم ہیں۔ افغانستان سے ہی پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں، ان میں سے اکثر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کے مسلح گروہ ملوث ہیں، جن کے لیے افغانستان محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان کو معاشی بحران کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان اب بھی دہشت گردی کے خلاف ایک نئی پراکسی وار جنگ لڑ رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کالعدم تنظیموں، علیحدگی پسندوں اور ملک کے اندر سیاسی اور وطن مخالف عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور ان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے اقدامات ضروری ہیں۔یہ واضح ہے کہ دہشت گردانہ واقعات میں خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ شہادتیں ہوئیں جب کہ دوسرے نمبر پر بلوچستان ہے، یہ سال رواں کی رپورٹ ہے۔
جہاں تک پاکستان میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری جو نئے نئے گروپس قبول کر رہے ہیں تو ان سب گروپس کا منبع ایک ہی ہے اور یہ گروپس کسی بھی صورت مملکت ِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کی ناک کے نیچے ٹی ٹی پی کے لوگ بڑے آرام سے ٹریننگ اور کاروبار کررہے ہیں اور بارہا پاکستانی حکام نے یہ مسئلہ طالبان حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے اور حالیہ حملوں پر ایک بار پھر افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے لیکن انھوں نے یقین دہانی کے باوجود پاکستان کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کی۔پاکستان نے چالیس سال تک افغانستان سے آنے والے لوگوں کو پناہ دی، افغانستان میں قوم پرست اور سوشلسٹ حکومت کے خاتمے کے لیے پاکستان نے افغان مجاہدین کی غیر معمولی مدد کی، بعد ازاں طالبان حکومت کی حمایت کی لیکن اس کا صلہ نفرت، تعصب، بغض، دغا بازی اور مسلسل دہشت گردی کی شکل میں دیا جارہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو طالبان حکومت کی حمایت کرتے ہیں، سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں،ان کی سہولت کاری پاکستان کے اندر سے ہی کی گئی ہے۔ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار بلا خوف وخطر کام کررہے ہیں ، جب کہ سکیورٹی فورسز کیساتھ پاکستانی عوام بھی شہید ہو ر ہے ہیں۔ حالیہ دنوں کے دوران گرفتار اور ہلاک ہونے والے ان دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ اور گولہ بارود اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گردوں کے پیچھے موجود بیرونی و خارجی قوتیں کیا کیا خطرناک اور مذموم عزائم رکھتی ہیں اور اپنے ان ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے وہ کس حد تک جا سکتی ہیں۔اس امر میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ اللہ کی عنائیت پاک سرزمین میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ڈانڈے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔ افغان حکام لاکھ اس امر کا دعویٰ کریں کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ نہ صرف افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے مسلسل استعمال ہو رہی ہے بلکہ افغان طالبان فورسز پاک افغان سرحد پر لگی باڑ ہٹانے میں بھی ملوث ہیں۔
اس امر میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ 25 کروڑ محب وطن پاکستانی عوام کو امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کے پرعزم کردار و عمل پر کامل بھروسا ہے۔ دہشت گردی کی خونی لہر کے خاتمے کے لیے پولیس اور سکیورٹی فورسز نے بے مثال قربانیاں بھی دی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کو ازسرنو منظم ہونے کا موقع کیسے ملا۔ کیا داخلی طور پر کچھ قوتوں نے سہولت کاری کی؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اعتماد سازی کا پروگرام اصل میں خاص فہم اور مقاصد کے لیے سہولت کاری تھی؟ بلاشبہ سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں اہداف کے حصول کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ افسروں اور جوانوں کی شہادتیں اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف آج بھی سب سے بڑی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ان حالات میں بہت مناسب ہوگا کہ تمام قومی سیاسی جماعتیں اور سماج سدھار کے مشن میں مصروف تنظیمیں بھی آگے بڑھ ملکی رائے عامہ کو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف منظم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ امن دشمنوں سے جاری جنگ پوری قوم کی مشترکہ جنگ ہے۔ ہم مل کر ہی ا پنے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔