باکو موسمیاتی کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں عالمی رہنماوں کا ضمیر جھنجوڑ کر رکھ دیا اور ان کے یہ الفاظ دنیا کے قلب و ذہن میں سما گئے کہ آج اگر ہمیں موسمیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، ہم تباہی اور بربادی کا شکار ہیں تو کل کو اس کا سامنا آپ کو بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا ایسے حالات آنے سے قبل ہی اس تباہی کا بروقت سدباب ہوجانا چاہیے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہو نے والی تباہی ایک عرصے سے پوری دنیا کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور ان سے بچنے کے لیے عالمی رہنماوں سر جوڑ لیے ہیں۔اقوام متحدہ کے بینر تلے 11 سے 22 نومبر2024ءتک آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میںموسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونیوالی کانفرنس ’کوپ 29 کلائمیٹ ایکشن سمٹ‘میں دنیا بھر کے ممالک کو عالمی پیرس معاہدے کے تحت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کیے گئے اقدامات سے متعلق تازہ ترین منصوبوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کا موقع بھی ملا۔ ان ممالک نے 2025ءکے اوائل میںاپنی رپورٹس اقوام متحدہ جمع کرانی ہیں۔
دنیا میںرونما ہونے والی اس ہولناک عالمی موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا کردارنہ ہونے کے برابرہے لیکن یہ ملک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور ہو رہا ہے۔خدا نہ کرے کسی اور ملک کوسیلاب کی صورت میں اس آفت کا سامنا کرنا پڑے جو پاکستان کئی سال سے کر رہا ہے۔’کوپ 29 کلائمیٹ ایکشن سمٹ‘سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف پاکستان کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز اور آلودگی کے خاتمے کے لیے درکار فنانسنگ پر عالمی برادری کی بھرپور توجہ دلانے میں کامیاب رہے۔وزیر اعظم نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’2022ءکے سیلاب میں لاکھوں پاکستانی بے گھر ہوئے اور لاکھوں ایکڑ زمینیں زیر آب آنے سے فصلیں تباہ ہو گئیں تھیں۔سڑکیں پانی میں بہہ گئیں، ریلوے لائنوں کو شدید نقصان پہنچا۔اس سیلاب سے ہماری معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔‘وزیر اعظم نے کہا کہ’پاکستان ان ممالک میں سے ہے جس کا عالمی آلودگی میں صرف 0.5 فیصد حصہ ہے۔‘
شہباز شریف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کیے گئے مالیاتی وعدوں کو پورا کرے۔ ’یہ موقع ہے کہ کوپ 29 کو اس بات کو واضح انداز میں بتانا ہو گا کہ کوپ 27 اور 28 میں کیے گئے مالیاتی وعدوں کو پورا کرنا ہو گا۔’دس سال پہلے پیرس میں کیے گئے مالیاتی وعدے بھی ابھی پورے ہونا باقی ہیں۔‘ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے آگے بند باندھنے کے لیے کیے گئے وعدوں کے مطابق 6 کھرب ڈالر درکار ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ’میری حکومت نے توانائی کے لیے 60 فیصد کلین انرجی کے ذرائع کے وعدے کو پورا کرنے اور اس دہائی کے آخر تک ملک میں 30 فیصد الیکڑک وہیکلز کے ہدف کے لیے ٹھوس اقدامات کر لیے ہیں۔پاکستان ماحولیاتی اہداف اکیلے پورے نہیں کر سکتا، اس کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی حمایت کی ضرورت ہے۔وزیراعظم نے عالمی برادری پر یہ بھی زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کی مد میں فنانسنگ امداد کی صورت میں کی جائے نہ کہ قرضوں کی صورت میں۔ ’کوپ کے کلائمیٹ فنانس فریم ورک کے تحت متاثرہ ممالک کی گرانٹس کے ذریعے مدد کی جانی چاہیے ، نہ کہ ان پر قرضوں کا بوجھ ڈالا جائے۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے د نیا اس وقت غیر معمولی درجہ حرارت کا سامنا کر رہی ہے اور اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ سال 2024ءگزشتہ سال کے ریکارڈ کو توڑ کر دنیا کے لیے گرم ترین سال بن جائے۔ یہ نئے اعداد و شمار عالمی موسمیاتی ادارے ڈبلیو ایم او نے جاری کیے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے ڈبلیو ایم او کی عالمی درجہ حرارت پر تازہ ترین تجزیاتی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انسان اپنے سیارے کو جلا رہا ہے اور اس کا خمیازہ بھی بھگت رہا ہے۔‘موسمیاتی تبدیلی پر اپنے پیغام میں انتونیو گوتیرش نے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے اقدامات کو فروغ دینے پر زور دیاہے۔
اعدادوشمار کے چھے بین الاقوامی نمونوں پر مبنی ڈبلیو ایم او کے تجزیے دنیا بھر کے عالمی درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اگرچہ رپورٹ میں سیشلز، ماریشس، لاوس اور آئرلینڈ جیسے ممالک کی موثر موسمیاتی خدمات فراہم کرنے کے حوالے سے کچھ کامیابیوں کا ذکر بھی ہے، لیکن رپورٹ میں عالمی سطح پر موسمیاتی بحران کے بگڑنے کے ثبوت بھی بتائے گئے ہیں۔کاپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کے اعدادوشمار کے مطابق اکتوبر 2024ءگزشتہ اکتوبر کے بعد دوسرا گرم ترین اکتوبر ریکارڈ کیا گیا۔یہ تشویشناک رجحان موسمیاتی آفات کے بڑھنے سے منسلک ہے۔ 2020ءاور 2024ءکے وسط تک گرمی سے متعلقہ خطرات موسم سے منسلک اموات کی بڑی وجہ بن گئے ہیں، جو کہ عالمی سطح پر رپورٹ شدہ موسمی، ماحولیاتی اور آبی اموات کا 57 فیصد بنتے ہیں۔
ڈبلیو ایم او کی سیکرٹری جنرل سیلی سٹے ساولو نے زور دیا ہے کہ غیر معمولی ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنے کے لیے موزوں موسمیاتی اقدامات اٹھانے میں موسمیاتی معلومات کی ترقی، فراہمی اور استعمال پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔موسمیاتی خدمات کی صورتحال پر رپورٹ میں اہم موسمیاتی معلومات کی فراہمی میں ہونے والی پیشرفت اور درپیش مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اگرچہ ایک تہائی قومی موسمیاتی اور آبی چکر (این ایم ایچ ایس) سے متعلق ضروری موسمیاتی خدمات فراہم کر رہی ہیں لیکن وسائل کی دستیابی کا بڑے پیمانے پر فرق موجود ہے۔ماحولیاتی موافقت کے لیے مختص 63ارب ڈالر میں سے صرف 4 سے 5 ارب ڈالر موسمیاتی خدمات اور ابتدائی انتباہی سرگرمیوں میں براہ راست استعمال ہوتے ہیں۔سیلی سٹے ساولو نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دنیا ئے ارضی کے پائیدار مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کرنا ضروری ہے کیونکہ عمل نہ کرنے کی قیمت عمل کرنے کی لاگت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ انھوں نے این ایم ایچ ایس کی حمایت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی تاکہ ابتدائی انتباہی نظام اور موسمیاتی خدمات فراہم کی جا سکیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے عالمی حدت میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے اور موسمی شدت کے واقعات دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں۔آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میںاقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس میں دنیا بھرکے حکومتی سربراہان، کاروبارافراد اور سول سوسائٹی کے رہنما موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں دنیا کو درپیش بہت بڑے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے جمع ہوئے۔کوپ 29 میں اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے مالیاتی وسائل کی فراہمی پر بطور خاص توجہ مرکوز کی گئی کیونکہ دنیا کو گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی کے بدترین ہوتے اثرات سے روزگار اور زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے کئی ٹریلین ڈالر درکار ہیں۔
باکو میںمنعقدہ کوپ 29 کیلئے آنے والے رہنماو ں پر کئی محاذوں پر اہداف کو پورا کرنے کا دباو تھا۔ انتونیو گوتریش نے کہا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنے کے نئے قومی موسمیاتی اقدامات کے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔انھوں نے عالمی موسمیاتی بحران کے پیشِ نظر تمام شراکت داروں سے التجا کی کہ’آئیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے عالمی رہنماﺅں پر ان کے وعدے پورے کرنے کے لیے دباو ڈالیں۔‘ بلا شبہ شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلی کا عالمی مقدمہ عالمی سطح پر درست انداز میں دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے اور انھیں ہلاکر رکھ دیا ہے۔ انھوں نے عالمی رہنماوں کو بروقت خبردار کر دیا ہے۔یقینا اس سنگین عالمی آفت کا مقابلہ مل جل کر کرنا چاہیے، اسی میں انسانیت کی بقاءہے۔