خبرنامہ انٹرنیشنل

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بھارتی فائرنگ سے 8 مسلمان قیدیوں کی ہلاکت کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ

نئی دہلی(ملت + آئی این پی) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی ریاست مدھیا پردیش میں پولیس کی فائرنگ سے 8 مسلمان قیدیوں کی ہلاکت کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی جانب سے جاری بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ مدھیا پردیش کی حکومت کو 31 اکتوبر کے روز پولیس کی جانب سے 8 قیدیوں کے ماورائے عدالت قتل کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنی چاہیے۔ریاستی پولیس کہتی ہے کہ کالعدم اسٹوڈنٹس موومنٹ آف انڈیا 8 قیدیوں نے بھوپال کی ہائی سیکیورٹی سینٹرل جیل میں ایک گارڈ کو قتل کیا اور 31 اکتوبر کی صبح فرار ہوگئے جس کے چند گھنٹوں بعد پولیس کی کارروائی میں مارے گئے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی پروگرامز ڈائریکٹر تارا را کے مطابق قیدیوں کی ہلاکت کے حوالے سے حکام کی جانب سے دیے گئے متضاد بیانات اور وڈیو کلپ نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قیدی پولیس سے بات کرنے کی کوشش کررہے تھے جب انہیں گولیاں ماری گئیں لہذا اس حوالے سے آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔بھوپال پولیس کے انسپکٹر جنرل نے اس حوالے سے کہا تھا کہ قیدی غیر مسلح تھے اور جب انہوں نے گرفتاری میں مزاحمت کی تو ان پر فائرنگ کردی گئی بعد ازاں انہوں نے اپنا بیان تبدیل کردیا اور کہا کہ قیدیوں کے پاس اسلحہ اور چاقو موجود تھے۔تاہم ریاستی وزیر داخلہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ قیدیوں نے جیل کے برتن اور چمچ وغیرہ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جبکہ مدھیا پردیش کے انسداد دہشتگردی اسکواڈ کے چیف نے نیوز چینلز کو بتایا تھا کہ جس مقام پر انہیں ہلاک کیا گیا وہاں ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ملا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مقامی میڈیا چینلز نے وڈیو فوٹیج آن ایئر کیں جو بظاہر پولیس مقابلے کے مقام کی تھی اور ان میں سے ایک وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قیدی اپنے ہاتھ ہلا رہے ہیں اور وہ پولیس اہلکاروں سے بات کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ایک اور وڈیو کلپ میں دکھایا گیا کہ فائرنگ کے بعد قیدی زمین پر پڑے ہوئے ہیں جبکہ ایک پولیس اہلکار ان میں سے ایک شخص کو گولی ماررہا ہے جو شائد اس وقت تک زندہ تھا۔ان قیدیوں پر قتل، ڈکیتی اور دہشت گردی سے متعلق جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات تھے، ان میں سے بعض قیدیوں کی پیروی کرنے والے وکیل نے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کو بتایا کہ قیدی کیوں جیل سے فرار ہونے کی کوشش کریں گے جبکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے کیس کا فیصلہ چند ہفتوں میں آنے والا ہے، ان کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں تھے اور ہمیں امید تھی کہ وہ رہا ہوجائیں گے۔تارا را کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق تمام 8 افراد کو متعدد گولیاں ماری گئیں اور تمام گولیاں کمر سے اوپر کے حصے میں ماری گئیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں اکثر حکام اس طرح کے جعلی پولیس مقابلوں کی موثر تحقیقات میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں تاہم اس کیس میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔گزشتہ دنوں بھارت کے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے مدھیا پردیش کے سینیئر پولیس اور حکومتی عہدے داروں کو ہدایات کی کہ وہ چھ ہفتوں میں اس واقعے کی تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔کمیشن کی جانب سے 2010 میں جاری کیے جانے والے ضابطہ کار کے مطابق تمام مبینہ جعلی مقابلوں کی آزادانہ ایجنسی کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہیے۔ستمبر 2014 میں سپریم کورٹ نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ پولیس مقابلوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی آزادانہ تحقیقات ضروری ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے اقوام متحدہ کے قواعد اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ماورائے عدالت قتل کی جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے جبکہ ان معاملات کی بھی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں جن میں کسی قیدی یا ملزم کی پولیس مقابلے یا کسی اور وجہ سے غیر فطری موت واقع ہوجائے۔