خبرنامہ انٹرنیشنل

برطانیہ بیلفورڈیکلیریشن پرفلسطینیوں سےمعافی مانگے،فلسطینی صد

نیویارک:(ملت+ آئی این پی )فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ برطانیہ کو چاہیے کے وہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرتے ہوئے وہاں یہودی آبادکاری کے حوالے سے 1917 میں کیے جانے والے ڈیکلیریشن کی توثیق کرنے پر معافی مانگے۔برطانوی میڈیاکے مطابق محمود عباس نے یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کہی۔ان کا کہنا تھا کہ بیلفور ڈیکلیریشن جس میں برطانیہ کا کہنا تھا کہ وہ فلسطین میں میں یہودیوں کی آبادکاری کے حق میں ہے اور اس سے وہاں رہنے والوں کے حقوق میں کمی نہیں آتی، کی وجہ سے فلسطینیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ محمود عباس کا کہنا ہے کہ ہم برطانیہ سے کہتے ہیں کہ اس ڈیکلیریشن کے سو سال مکمل ہونے پر اس سے کچھ سبق سیکھے اور تاریخی، قانونی، سیاسی اور اخلاقی طور پر اس ڈیکلیریشن کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرے۔ فلسطینیوں سے اس کی وجہ ہونے والی ناانصافی اور بدحالی پر معافی مانگے۔ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو اب اس ڈیکلیریشن کے نتائج اور اس سے ہونے والی تباہی کو درست کرنے کے لیے کم سے کم اتنا کرنا ہوگا کہ وہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک برطانوی مشن نے فی الحال محمود عباس کے خطاب پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔محمود عباس نے 1917 کے ڈیکلیریشن جو کہ برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بیلفور کے نام سے مشہور ہے کا ذکر دیگر سنگ میل کے ساتھ کیا جن میں 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد اور 1967 کی جنگ جس میں اسرائیل نے غرب اردن اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا شامل ہیں۔محمود عباس کے خطاب کے چند لمحوں بعد اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور کہا کہ محمود عباس ڈیکلیریشن پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ انھوں نے فلسطینیوں کی جانب سے برطانیہ کے خلاف مقدمہ کرنے کے امکان کی جانب بھی اشارہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی صدر نے اس مقام سے بیلفور ڈیکلیریشن پر حملہ کیا ہے۔ وہ اس ڈیکلیریشن کو لے کر برطانیہ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ اس بات کو اب سو سال گزر چکے ہیں، اور وہ ماضی میں رہ کر بات کر رہے ہیں۔