خبرنامہ انٹرنیشنل

مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم کا تذکرہ کرتےوقت ہالی ووڈ اداکارہ کئی باررو پڑیں

سری نگر:(ملت+ اے پی پی) ہالی ووڈ اداکارہ ایریکا ڈیرکسن نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور وہاں جاری انسانیت سوز کارروائیوں پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں وہ قابض بھارتی فوجیوں کے مظام کا تذکرہ کرتے ہوئے کئی بار رو پڑیں۔ ایریکا ڈیرکسن کا ویڈیو میں کہنا تھا کہ آپ کیسا محسوس کریں گی جب آپ کا شوہر ناشتہ لینے جائے اور کبھی واپس نہ آئے؟ آپ کو کیسا لگے گا جب آپ کی بیٹی کی آنکھوں میں پیلٹ گن سے گولیاں ماری جائیں اور وہ ساری زندگی کےلئے نابینا ہوکر رہ جائے؟ آپ کیسا محسوس کریں گے جب آپ کی گلی، آپ کے قصبے، آپ کے شہر پر قابض فوجی آپ کی بہن کی عصمت تار تار کردیں؟ آپ کیسا محسوس کریں گے جب آپ قتل ہونے اور مارے جانے کا خطرہ مول لئے بغیر گھر سے باہر نہ نکل سکتے ہوں؟ ’’(مقبوضہ) کشمیر میں اس وقت یہی سب کچھ ہورہا ہے!‘‘ ’’میں نہیں جانتی کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ یہ انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے۔ بھارتی فوج کرفیو لگا کر کشمیری عوام کو دہشت زدہ کرنے، ان کا قتلِ عام کرنے، خواتین کی عزتیں لوٹنے اور ان پر تشدد کرنے میں مصروف ہے جسے آج 70 دن سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ انہیں موت کا خطرہ مول لئے بغیر گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ انٹرنیٹ بھی بند ہے، مواصلات محدود اور بھارتی فوجیوں کے کنٹرول میں ہیں۔‘‘ ایریکا ڈیرکسن کا کہنا تھا کہ دوسرے ملکوں میں رہنے والے کشمیری اس کڑے وقت میں اپنے گھر والوں سے مل نہیں سکتے، یہ کشمیر میں انتہائی بھیانک وقت ہے۔ اب تک مرنے والوں کی تعداد 100 سے بڑھ چکی ہے اور 12,000 سے زیادہ لوگ زخمی ہوچکے ہیں؛ یعنی ہر روز 150 سے زیادہ افراد زخمی ہورہے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ مجھے کشمیر کی تاریخ اور دوسرے معاملات کا اتنا علم نہیں جتنا آپ کو ہوسکتا ہے لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ یہ غلط ہے۔ ’’اگر آپ میری پرانی ویڈیوز دیکھیں تو ان میں آپ کو ایک کشمیری قالین دکھائی دے گا۔ ماضی میں مجھے کشمیر جانے کا موقع ملا اور مجھے وہاں بہت مزا آیا۔ مجھے وہ لوگ، وہ خاندان آج تک یاد ہیں جن سے میں نے یہ کشمیری قالین خریدا تھا؛ وہ بہت خوشگوار لمحات تھے۔ وہ پورے کا پورا خاندان اب مرچکا ہے؛ وہ 13 کے 13 افراد مرچکے ہیں۔ اور ان سب کو بھارتی فوج نے قتل کیا ہے!‘‘ ’’یہ کیسے درست ہوسکتا ہے؟ اسے کس طرح جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ حالات پر قابو پانے کےلئے زیادہ تشدد کوئی حل نہیں، لوگوں کو زیادہ ہراساں کرنا کوئی حل نہیں، اور زیادہ خوف پھیلانا بھی کوئی حل نہیں۔ میں نہیں جانتی کہ مسئلے کا حل کیا ہے لیکن میں خاموش بھی نہیں بیٹھ سکتی جب کہ مجھے ہر طرف سے بار بار یہ سننے کو مل رہا ہو کہ میں کچھ نہیں سمجھتی۔ لیکن میں اتنا خوب سمجھتی ہوں کہ یہ بہت ہی غلط ہے کہ بچوں کو قتل کیا جائے، چاہے وجہ کچھ بھی ہو۔‘‘ ’’کیا آپ بچوں کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں؟ آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘