خبرنامہ انٹرنیشنل

مودی نے کرنسی نوٹ اچانک منسوخ کر کے پورے بھارت کو ہلا کے رکھ دیا

تجزیہ: قدرت اللہ چودھریکیا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھارت میں کالے دھن والوں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں اور ان سے ٹیکس لینے میں ناکام ہوکر انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے کہ 500 اور ایک ہزار کے کرنسی نوٹ اچانک منسوخ کردیئے ہیں۔ یہ قدم اتنا فوری تھا کہ اس سے پورے بھارت میں افراتفری مچ گئی اور مارکیٹوں میں بھونچال کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ آج سے منسوخ شدہ نوٹ لین دین کیلئے استعمال نہیں ہوں گے اور لوگ انہیں 30 دسمبر تک اپنے بینک اکاؤنٹس میں جمع کرا سکیں گے۔ ہر بھارتی یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ اتنی افراتفری میں اس اقدام کی ضرورت کیا تھی جو ہزاروں لوگ سفر میں ہیں رات بارہ بجے کے بعد ان کی جیبوں میں پڑے ہوئے نوٹ کاغذ کے پرزے بن جائیں گے۔ اگرچہ وہ یہ نوٹ اپنے اکاؤنٹس میں جمع کرا سکیں گے لیکن فوری طور پر تو وہ وزیراعظم کے اس اعلان سے ہکا بکا رہ گئے جنہوں نے قوم کے نام نشری تقریر میں نوٹوں کی منسوخی کا اعلان کردیا۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا نریندر مودی کو پاگل پن کا ایک اور دورہ پڑا ہے۔ اس کے پس پردہ مقاصد تو چند دن میں سامنے ائیں گے لیکن جو بات نوٹ منسوخ کرتے ہوئے انہوں نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دونوں نوٹ کالے دھن میں استعمال ہو رہے تھے اور سرحد پار سے جعلی کرنسی بھی آ رہی ہے جسے دہشت گرد استعمال کر رہے ہیں۔ اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک طرف تو 500 اور ایک ہزار کے نوٹ منسوخ کئے جا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ اعلان کیاجا رہا ہے کہ حکومت دو ہزار روپے کا کرنسی نوٹ جاری کرے گی۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ اگر منسوخ شدہ مالیت کے نوٹ کالے دھن کیلئے استعمال ہو رہے تھے تو کیا دوہزار کا نوٹ اس مقصد کیلئے استعمال نہیں ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کے غریب تو ایک روپے سے لے کر 100 روپے تک کا نوٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ ان کے ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کبھی 500 کا نوٹ دیکھا تک نہیں۔ اس سے غربت کی اس لہر کا اندازہ ہوتا ہے جو بھارت میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی ہے۔ ممبئی اور کلکتہ جیسے کاسمو پولیٹن شہروں میں ہزاروں لاکھوں لوگ سڑکوں کے کناروں اور فٹ پاتھوں پر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے تمام تر معمولات انہی فٹ پاتھوں پر ہوتے ہیں، ساری عمر ان لوگوں کو چھت نصیب نہیں ہوتی اور فٹ پاتھ پر پیدا ہونے والے بچے زندگی کی تمام منزلیں انہی فٹ پاتھوں پر طے کرتے ہیں اور ان کی ارتھی بھی اسی فٹ پاتھ سے اٹھتی ہے۔نریندر مودی دراصل ڈرامے کرنے کے عادی ہیں، وہ جب انتخابی مہم چلا رہے تھے تو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستانیوں کی جو دولت ملک سے باہر پڑی ہوئی ہے وہ واپس لائی جائے گی اور ہر غریب ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے جمع کرا دیئے جائیں گے۔ جب وہ وزیراعظم منتخب ہوکر پہلی بار عوام میں گئے تو لوگوں نے ’’پندرہ پندرہ لاکھ روپے‘‘ کے بارے میں یاد دہانی کرائی، اس پر ان کا جواب تھا کہ یہ تو انتخابی سٹنٹ تھا اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ لگتا ہے نوٹ منسوخ کرنے کا یہ اقدام بھی اسی طرح کا سٹنٹ ہے۔مودی نے ہندوستانی وقت کے مطابق منگل کی رات آٹھ بجے اپنے خطاب میں نوٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ 12 بجے رات کے بعد ان نوٹوں کا لین دین نہیں ہوسکے گا لیکن عملاً ان نوٹوں کی حیثیت ان کے خطاب کے ساتھ ہی ختم ہوگئی کیونکہ جس کو معلوم ہوتا کہ 12 بجے رات کے بعد یہ نوٹ نہیں چلیں گے دو ڈھائی گھنٹے پہلے ان نوٹوں کے لین دین کا رسک کیوں لیتا۔ جہاں ایمرجنسی میں ان نوٹوں میں خریداری کی اجازت تھی انہوں نے اول تو یہ نوٹ نہیں لئے اور اگر لے لئے تو عملاً دشواری یہ تھی کہ ہر کوئی پانچ سو اور ہزار کا نوٹ دے رہا تھا اتنی ریزگاری کہاں سے آتی چنانچہ پٹرول پمپوں پر بھی ان نوٹوں کا کاروبار نہیں ہوسکا۔ جو لوگ اپنے اکاؤنٹس میں یہ نوٹ جمع کرائیں گے انہیں اپنے ساتھ ایک ڈیکلریشن بھی دینا ہوگا۔ مودی نے اپنے خطاب میں انکشاف کیا کہ سٹیٹ بینک نے انہیں دس ہزار اور 20 ہزار کے نئے نوٹ جاری کرنے کیلئے کہا تھا لیکن انہوں نے یہ تجویز مسترد کردی البتہ دو ہزار کا نیا نوٹ جاری کرنے کا اعلان کیا۔ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانا ہے کیونکہ یہ وہ اقدام ہے جس سے ہر کوئی متاثر ہوگا اور لوگوں کو خرید و فروخت میں پریشانی لاحق ہو جائے گی۔ آج ریزرو بینک آف انڈیا بند رہے گا، کمرشل بینکوں کی اے ٹی ایم مشینیں بھی بند رہیں گی اور جب کھلیں گی تو صرف محدود رقم نکلوانے کی اجازت ہوگی جو پہلے مرحلے میں دو ہزار اور دوسرے مرحلے میں چار ہزار سے زائد نہیں ہوگی۔ آج جب سٹاک ایکسچینج کھلے گا تو اس میں افراتفری کا منظر دیکھنے والا ہوگا۔ تاریخی مندے کا رجحان دیکھنے میں آئے گا اور سرمایہ کار مودی کی اقتصادی عقل و دانش کا ماتم کر رہے ہوں گے۔