خبرنامہ پاکستان

امریکی اقدامات کے جواب میں ردعمل جذباتی لگتا ہے

امریکی اقدامات کے جواب میں ردعمل جذباتی لگتا ہے

اسلام آباد (ملت آن لائن) پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی سویلینز اور پارلیمنٹ کی مدد سے بنانی ہوگی، حکومتی اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے، خواجہ آصف کایہ ٹویٹ غیر ذمہ دارانہ ہے کہ اب ہم امریکہ کے تابع نہیں رہے، یہ بات پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماء سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اسلام آباد میں پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی ،جس سے جنرل (ر) امجد شعیب ، ایاز وزیر اور دیگر نے بھی خطاب کیا، پاک امریکہ تعلقات پرسیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا صدر ٹرمپ کے بظاہر غیر ذمہ دارانہ بیانات میں ہوشیاری چھپی ہوئی ہے،امریکی اقدامات کے جواب میں ردعمل جذباتی لگتاہے،غصے والا جواب دینے کی بجائے پاکستان کو چاہئے کہ ایک نپا تلا ،مدلل اور درست جواب دے ، نئے سال پر ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد امریکہ کے پاکستان سے تعلقات کے نئے اصولوں کا اعلان، یکطرفہ اقدام اور ڈرون حملے دوبارہ شروع کرنیکا اعلان کیا گیا ہے اسلئے تمام سکیورٹی تعاون معطل کرنے کے اعلان پر حیرت نہیں ہونی چاہئے اس کے جواب میں پاکستان میں ایک طرف امن کی خواہش اور دوسری جانب دھمکی آمیز رویہ اپنایاگیا جو درست پالیسی نہیں، انہوں نے کہا کہ 15سال کے دوران 33بلین ڈالرزہماری قومی بجٹ کے 5 مہینوں سے زیادہ کیلئے بھی کافی نہیں،امریکی امداد1965کی پاک بھارت جنگ کے بعد معطل ہواتھا،جمی کارٹر نے 1979میں نیوکلیئر افزودگی پرتمام امدادمعطل کردی تھی،1990میں پریسلر ترمیم کے تحت امدادمعطل کی گئی،1993میں یوایس ایڈ کے پاکستان میں دفاتر8سال بند کردئیے گئے، جبکہ 1998میں دھماکوں کے بعد امریکہ نے امدادمکمل طورپربند کردی۔امریکہ کا بھارت کی جانب جھکائو مارچ 2000ء میں اس وقت شروع ہوا جب صدر کلنٹن نے پانچ روز بھارت میں گزارے ، پاکستان میں صرف پانچ گھنٹے گزارے ، انہوں نے کہا یہ نئے تعلقات ٹرمپ نے نہیں کلنٹن نے اپنائے تھے، امریکہ سے تعلقات مکمل طور پر ختم ہوگئے تو پاکستان کا چین پر انحصار ہو جائیگا ، اگر افغان طالبان پاکستان میں نہیں ہیں تو ا نکی جنگ پاکستان میں کس طرح داخل ہو سکتی ہے؟ سرتاج عزیز کھلے عام اعتراف کر چکے ہیں کہ کچھ طالبان لیڈر پاکستان میں رہ رہے ہیں بلکہ انہیں سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں،فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا کہ پالیسی سازی میں سویلین کا کردار بڑھایا جائے ،کچھ عرصہ قبل جب وزیر دفاع نے دہشتگردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کی بات کی تھی آئی ایس پی آر نے اسے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا،سینیٹ کی جانب سے حالیہ پالیسی گائیڈ لائن پر توجہ دیجائے اور سرحدوں کے دونوں جانب دہشتگردی الزامات کو مشترکہ طور پر دیکھا جائے، برکس( BRICS )کے اعلان اور اشرف غنی کی جانب سے پاکستانی ٹرکوں کا افغانستان میں داخلہ روکنا آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے، امریکہ سے تعلقات اس طرح خراب ہوتے رہے تو سکیورٹی تعاون کے معطل ہونے کے بعد سکیورٹی افراد پر امریکی سفری پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ایاز وزیر کا کہنا تھا وزیر خارجہ نے کہا ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا ایسی پالیسیاں بنانا ہونگی کہ معاشی اور سیاسی طور پر ہم مضبوط ہوں ،ٹرمپ کی تقاریر یا ٹویٹس میں کوئی نئی بات نہیں ، امریکی حکام 9/11 کے بعد سے ہمارے ساتھ ایسی باتیں کرتے آئے ہیں، 9/11 کے بعد ہم معاملات کو سنبھال نہیں سکے اسلئے ہمیں بار بار ڈومور کا کہا گیا،ہم نے کبھی درست طریقے سے افغانستان کے مسئلے کو دیکھا ہی نہیں ، امریکہ افغانستان میں القاعدہ کے خاتمے کیلئے ہی نہیں بلکہ کچھ اور عزائم لیکر آیا تھا جن میں چین اور پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں پر نظر رکھنا بھی شامل تھا، جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا افغانستان میں عدم استحکام سے متاثر ہونیوالا واحد ملک پاکستان ہے ، قطر میں طالبان کا دفتر کھولا گیا اور چار ملکی اتحاد بنا کر طالبان سے مذاکرات کئے گئے مگر امریکہ نے ملا اختر منصور کو مار کر تمام عمل کو نقصان پہنچایا امریکہ کیوجہ سے فاٹا میں ہمارے اپنے لوگ ہمارے دشمن ہوگئے ، پاکستان نے امریکہ کو زمینی راستہ اور ہوائی اڈے دیئے مگر وہ پھر بھی خوش نہیں اورہم پر ڈبل گیم کا الزام لگاتا ہے ۔ امریکہ درحقیقت بھارت کی زبان بول رہا ہے۔