خبرنامہ پاکستان

سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کونوچا جاتا ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد:(اے پی پی) سپریم کورٹ نے اسلام آبادکے پولی کلینک اسپتال میں دواؤں کی چوری اور نائٹرس آکسائیڈکی خریداری میں بے قاعدگیوں کے بارے میںوزارت کیڈکی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے پمزسمیت دارالحکومت کے 3 بڑے اسپتالوں کے چیف ایگزیکٹوزسے تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اس سول جج کے بارے میں تفصیلات بھی مانگی ہیں جنھوں نے عدالت عظمیٰ کے ازخودنوٹس کے باجود پولی کلینک اسپتال کونائٹرس آکسائیڈگیس فراہم کرنے والی کمپنی کے حق میں حکم امتناع جاری کیاتھا۔ عدالت نے اسپتال کو نائٹرس آکسائیڈفراہم کرنیوالی کمپنیوں کی تفصیلات بھی مانگی ہیں۔ جسٹس ثاقب نثارنے ریمارکس دیے کہ سرکاری اسپتالوں میں بیمارانسانی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جاتاہے، انھیں مردارخورگدھوں کی طرح نوچاجاتاہے۔ اپنے شہریوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، اگر ریاست اپنی ذمے داری پوری نہیں کرے گی تو ہم یقینی بنائیں گے کہ ریاست اپنی ذمے داری پوری کرے۔ جسٹس اعجازافضل خان نے کہا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ 3 سال سے 3 ہزارکاسلنڈر22 ہزارمیںخریدا جارہا ہے، جب سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو سول کورٹ سے حکم امتناع لے کر اسے جاری رکھا گیا، اکثر سرکاری اسپتالوں کے لیباریٹری ٹیسٹ غیرمعیاری ہوتے ہیں اور اسپتال کا عملہ خود مریض کوباہر سے ٹیسٹ کرانے کامشورہ دیتاہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نایاب گردیزی نے رپورٹ پیش کی اورکہا کہ وزارت کیڈنے پولی کلینک کے چیف ایگزیکٹوکے خلاف الزامات کی تفتیش کے لیے کمیٹی قائم کی تھی، الزام لگانے والا ڈاکٹرکمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا، کمیٹی نے ڈاکٹرافتخار ناروکوالزامات سے بری کر دیاہے۔ ڈاکٹرارشد رانا نے عدالت کو بتایا کہ 30 کلوگرام کی نائٹرس آکسائیڈکا سلنڈر پمزکو 7 ہزار اورنجی اسپتالوں کو 3 ہزار میں ملتا ہے جبکہ گزشتہ 3 سال سے یہی سلنڈر پولی کلینک کو 22 ہزار میں فراہم کیاجارہاہے، اسپتال نے ایک پرائیویٹ کمپنی کوساڑھے3کروڑ روپے کا سالانہ ٹھیکہ دیاہواہے۔ انھوں نے مزیدبتایاکہ فراہمی اب بھی جاری ہے، جب عدالت نے نوٹس لیاتوکمپنی نے سول کورٹ سے حکم امتناع حاصل کر لیا۔ جسٹس ثاقب نثارنے کہاکہ بے قاعدگیوں کو نظر انداز نہیں کریںگے۔ سرکاری اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز نہیں ہوتے، پنجاب کے اسپتالوںمیںانھوں نے خود دیکھا ہے کہ ٹانکے لگانے اور لیباریٹریوںکیلیے ضروری آلات تک نہیں ہوتے، صحت عامہ کاخیال رکھنااورلوگوں کو علاج معالجہ فراہم کرناریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیںکررہی۔ ڈاکٹرافتخار نارونے اپنی صفائی میں کچھ بولناچاہاتوعدالت نے سرزنش کی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ 3 ہزارکا سلنڈر22 ہزار میں بھراجارہا ہے اور پھر بھی خودکو بے گناہ سمجھتے ہو۔ ڈاکٹر آفتاب نے بتایا کہ نائٹرس آکسائیڈ کے بارے میں ایک انکوائری پہلے بھی ہوئی تھی جس سے پتہ چلاکہ اسپتال کوفراہم کیے جانے والے 50 فیصد سلنڈر خالی ہوتے ہیں اور50 فیصد آدھی خالی ہوتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ آپ نے مردار خور گدھوں کے بارے سنا ہوگا جس طرح وہ نوچتے ہیں اسی طرح اسپتالوں میں بیمارانسانوںکے ساتھ ہوتاہے لیکن وقت آ گیا ہے کہ ہم اب ملک کوکچھ دے سکیں، اس کیس کوہم ترجیحی بنیادپر سنیںگے اور یقینی بنائیںگے کہ اس ضمن میں ریاست اپنی ذمہ داریاںپوری کرے۔ ایک رٹائرڈ سرجن نے عدالت کوبتایاکہ فارما انڈسٹری اور ڈاکٹروںکی ملی بھگت سے مریض مہنگی دوائیں خریدنے پر مجبور ہیں، جو دوائی 10 روپے میں ملتی ہے وہ 4آنے میں بھی دستیاب ہوتی ہے لیکن بارکوڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے مریض اس سے فائدہ نہیں اٹھاپاتے، سرکاری اسپتالوںکے بجٹ تخمینے میںان کمپنیوںکی دوائیں ڈالی جاتی ہیں جومہنگی ہوتی ہیں لیکن دوا اس کمپنی سے خریدی جاتی ہے جن کی قیمتیں کم ہوتی ہیں۔ انھوں نے بارکوڈنگ کا طریقہ کار اپنانے کی تجویز دی جس پر انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ اس ضمن میںعدالت کی معاونت کریں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ نائٹرس آکسائیڈانیستھیزیا میں استعمال ہونے والی گیس ہے، پولی کلینک میںسی ٹی اسکین اور ایم آرآئی کی مشینیں نہیں ہیں، وزیراعظم نے یہ مشینیں فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ینگ ڈاکٹرزکے صدرنے بتایاکہ پولی کلینک اور پمز میں اکثر مشینیں خراب پڑی ہیں۔ عدالت نے ان اسپتالوں سے مرض کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے والی مشینوںکی تفصیلات طلب کر لیں اور سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ سرکاری اسپتالوںکی مشینوںکا خراب ہوناحیران کن ہے۔ این این آئی کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے کہا صحت کے شعبے میںمردارخورگدھ مریضوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق جسٹس ثاقب نثارکا مزیدکہنا تھا کہ پنجاب میں سرکاری اسپتالوں کا حال برا ہے، مریضوںکی جان بچانے والی دواؤں کا بھی فقدان ہے۔