خبرنامہ پاکستان

سینٹ، فاٹا اصلاحات میں ایف سی آرکےکالےقانون کوختم کیاجاناچاہیے،عبدالقادر

اسلام آباد : (اے پی پی) وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ فاٹا اصلاحات میں ایف سی آر کے کالے قانون کو ختم کرکے اس کی جگہ رسم و رواج پر مبنی نیا قانون لانے‘ 2017ء میں یہاں بلدیاتی انتخابات کرانے‘ فاٹا میں اشیاء خوردونوش پر عائد ٹیکس ختم کرنے کی سفارش کی ہے‘ پانچ سال کے دوران 500 ارب روپے کی خطیر رقم ترقیاتی کاموں میں صرف کی جائے گی‘ 5 سال بعد فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے گا‘ 31 دسمبر 2016ء تک نقل مکانی کرنے والا ہر فرد اپنے گھر کو واپس جائے گا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کمیٹی کی سفارشات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے فاٹا قیام پاکستان سے اب تک بہت سی سہولیات سے محروم رہا ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اس بات کا نوٹس لیا تاکہ فاٹا کے عوام کا اپنے علاقہ پر حق حاکمیت رائج ہو اور اسے ملک کے دیگر صوبوں کے برابر لایا جائے۔ فاٹا کے ہزاروں ملک اور پولیٹیکل ایجنٹس اب تک شہید ہو چکے ہیں جس سے فاٹا کا انتظامی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا۔ بدامنی کی وجہ سے فاٹا کی ایجنسیوں کی اکثریت میں آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ ان کو اپنے گھروں میں بسانا اصل مسئلہ تھا جو وسائل پر ایک انسانی بوجھ تھا۔ ہم نے فاٹا کے لوگوں کے درمیان جاکر مشاورت کی۔ ہم نے وہاں پر زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی رائے لی۔ ان کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ سب سے پہلے انہیں واپس اپنے گھروں کو روانہ کیا جائے اور ان کا تباہ حال ڈھانچہ از سر نو تعمیر کیا جائے۔ ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ انہیں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا جائے۔ فاٹا کے عوام کی اکثریت نے اس بات کی حمایت کی کہ انہیں خیبر پختونخوا میں ضم کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام فوری طور پر نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے ٹرانزیشنل پیریڈ درکار ہوگا۔ یہ سفارشات حتمی نہیں ہیں‘ ارکان کی تجاویز کا بھی خیر مقدم کیا جائے۔ فاٹا کا موجودہ پی ایس ڈی پی 22 ارب کام اس میں 90 ارب کا اضافہ ہوگا۔ فاٹا کے پینے کے پانی کی ضروریات اور ترقی کے عمل میں پہلے پانچ سال اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ پانچ سال تک فاٹا کی موجودہ حالت برقرار رہے گی۔ اس دوران 500 ارب روپے کی خطیر رقم سے وہاں کے عوام کا معیار زندگی بہتر بنایا جائے گا۔ اس کے بعد فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 31 دسمبر 2016ء تک نقل مکانی کرنے والا ہر فرد اپنے گھروں کو واپس جائے گا۔ 2017ء میں وہاں بلدیاتی انتخابات ہونگے۔ گریڈ 22 کے عہدے کا ایک چیف سیکرٹری گورنر کے پی کے کی زیر نگرانی فاٹا میں ترقیاتی سرگرمیوں کی نگرانی کرے گا اور اس حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی بھی بنائی جائے گی۔ ہماری تجویز ہے کہ فاٹا میں جانے والے کھانے پینے کے سامان پر سے ٹیکس ختم کیا جائے۔ فاٹا کے عوام نے فاٹا میں یونیورسٹی‘ میڈیکل اور انجینئرنگ کے کالجز کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہمارے وژن کے مطابق ہے۔ ارکان اپنی تجاویز دیں حکومت خیر مقدم کرے گی۔ فاٹا کے عوام کی فلاح و بہبود کسی حکومت یا سیاسی جماعت کا نہیں پاکستان کا مسئلہ ہے کیونکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے انہوں نے بے مثال قربانی دی ہے۔ فاٹا کے معاملہ پر فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ایک ایڈوائزری کمیٹی بنانے کی بھی تجویز دی ہے۔ یہ کمیٹی گورنر کے پی کے کو ترقیاتی عمل کے حوالے سے تجاویز دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایف سی آر جیسے کالے قانون کو ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔اس کی جگہ نیا قانون لایا جارہا ہے۔ وزیر قانون اس پر کام کر رہے ہیں یہ قانون فاٹا کے رسم و رواج کے مطابق ہوگا۔ فاٹا کے عوام کو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ خاصہ داروں کی فورس ختم کرکے اہلیت کی بنیاد پر ایک فورس بنائی جائے گی۔ ملازمت سے کسی کو نہیں نکالا جائے گا۔ وزارت داخلہ اس حوالے سے کام کرے گی۔