خبرنامہ پاکستان

سینیٹ اجلاس ،اپوزیشن نے صدر کی لکھی تقریر قراردیدیا

اسلام آباد (آئی ا ین پی) ایوان بالا میں صدر مملکت ممنون حسین کے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب کو اپوزیشن نے سیکشن افسر کی لکھی ہوئی تقریر اور حکومتی سینیٹرز کی جانب سے اہم سنگ میل قرار دیا گیا‘ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے ارکان نے سخت تنقید کی اور کہا کہ صدر کا خطاب (ن) لیگ کا ویژن تھا صدر کا اپنا ویژن کہیں بھی نظر نہیں آیا‘ حکومتی کمزوریوں پر کوئی بات نہیں کی گئی‘ آئین کی بالادستی سمیت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو بھی خراج تحسین پیش نہیں کیا گیا‘ مردم شماری کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی جو وقت کی اہم ضرورت ہے ‘ حکومتی سینیٹرز نے صدر کے خطاب کو سراہتے ہوئے کہا کہ صدر نے اپنے خطاب میں معیشت کا موازنہ پیش کیا‘ اقتصادی راہداری کی افادیت سمیت عالمی دنیا سے بہتر معاسی ‘ سیاسی روابط کو بڑھانے پر زور دیا۔ جمعہ کو سینٹ کا اجلاس پریذائیڈنگ آفیسر احمد حسن کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں صدر کے خطاب پر سینیٹر طاہر حسین مشہدی ‘ سینیٹر جاوید عباسی‘ سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم‘ سینیٹر نعمان وزیر خٹک‘ سینیٹر عثمان کاکڑ اور سینیٹر محمد علی سیف نے بحث میں حصہ لیا۔ اس موقع پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ صدر نے اپنے خطاب میں حکومت کی کمزوریوں کو اجاگر نہیں کیا کہ اصلاح کی جائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فورسز کی قربانیوں کو ٹھیک طرح سے خراج تحسین پیش نہیں کیا گیا۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے خطاب میں کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ یہ ایک کالا داغ ہے۔ پنجاب میں ماورائے عدالت پولیس مقابلوں پر بات نہیں کی۔ خارجہ پالیسی ناکام ہونے کی وجہ سے ہم تنہا ہوگئے ہیں لیکن اس پر انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی جو انہوں نے کہا ٹھیک تھا لیکن بہت سے ایشوز پر بات نہیں کی جو ضروری تھے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ صدر نے اپنے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران پاکستان کو درپیش تمام مسائل کا جامع انداز میں تذکرہ کیا۔ ان کا خطاب بڑا متوازن تھا۔ معیشت کا موازنہ پیش کیا سی پیک کے فوائد کا تذکرہ کیا‘ دہشت گردی کے خلاف پاکستان آرمی کی قربانیوں پر خراج تحسین پیش کیا۔ ضرب عضب سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کا تذکرہ کیا ‘ مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی اخلاقی‘ سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ سینیٹر جنرل عبدالقیوم نے کہا کہ صدر کا مشترکہپارلیمنٹ سے خطاب بڑا متوازن تھا اور ملک کو درپیش تمام مسائل کو پیش کیا۔ ملک کے معاشی اشاریے بہتری کی جانب جارہے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے 23مارچ کی پریڈ ممکن نہ ہوسکی تھی مگر موجودہ حکومت کے دور میں یوم پاکستان کی پریڈ منعقد ہوئی۔ عوام و خواص میں ڈر کی سی کیفیت تھی سارے فیتے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر میں کاٹے جاتے تھے مردم شماری وقت کی ضرورت ہے دنیا میں جس ملک میں ترقی کا پہیہ چلا ہے وہ مردم شماری ی وجہ سے ہی ترقی ہوئی۔ نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ صدر پاکستان قابل عزت و احترام ہیں صدر کے خطاب میں ویژن نہیں تھا ملک کیلئے کسی ویژن کا صدر کے خطاب میں تذکرہ نہیں تھا معیشت‘ صحت‘ تعلیم اور توانائی کے شعبے کے لئے ویژن کا اعلان کیا جاتا سی پیک پر گلگت بلتستان جا کر ہماری آنکھیں کھل گئیں کیسے وہاں چار لین روڈ بنے گا حکومت کہتی ہے کہ خنجراب میں 1700 ایکڑ زمین لیں گے مگر وہاں سترہ ایکڑ زمین حکومت دکھا دے حکومت کے پاس منصوبہ بندی کی کمی نظر آتی ہے چین کے ساتھ شاہرات پر محصول کیلئے کوئی معاہدہ ہی نہیں کیا گیا۔ حکومتی جماعت اپنے لوگوں سے مشاورت بھی نہیں کرتی آرمی پبلک سکول ک پر حملے کے معاملے پر اگر وفاق یا صوبے کی غلطی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ توانائی کے منصوبے میں نندی پور توانائی منصوبہ ہمارے لئے ٹیسٹ کیس ہے تیرہ سے چودہ روپے فی یونٹ بجلی بن رہی ہے حالانکہ اس سے کم ریٹ پر بجلی بنائی جانی چاہئے تھی۔ حکومت یا تو خریدتی ہے یا بلیک میل کرتی ہے پی ٹی آئی کو خریدا نہیں جاسکا تو بلیک میل کیا جانے لگا۔ 1992 کا بنک ریفارم ایکٹ میں کوئی اپنی آف شور کمپنی نہیں رکھ سکتا بھارت ایف سولہ جہاز بنائے گا مگر ہم پیسوں کے ذریعے ایف سولہ جہاز خرید نہیں سکے۔ فاٹا ریفارمز کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ غوث بخش نیازی نے کہا کہ صدر کا دونوں ایوانوں سے خطاب میں حکومت کی کارکردگی کو سراہا ہے صدر پاکستان نے معیشت‘ دہشت گردی اور خارجہ پالیسی کے اہم نکتوں پر بات کی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ پر صدر نے پارلیمان کو مبارکباد دی۔ عوام اور ٹیکسوں میں ابہام تھا عام آدمی بھی ٹیکس دینے سے کتراتا تھا مگر وزیر خزانہ نے اس ڈر سے عوام کو نکالا اور عوام کو ٹیکس نیٹ میں موجودہ حکومت ہی لیکر آئی موجودہ حکومت نے بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کیا پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کی عوام کیلئے تحفہ ہے۔ کشمیر میں ہونے والے ظلم کی مذمت کرتے ہیں۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ صدر کی نظر آئین اور قانون پر عمل درآمد پر ہونی چاہئے صدر پاکستان نے آئین پر عمل درآمد کا ذکر ہی نہیں کیا۔ مردم شماری ہر دس سال بعد ہوتی ہے مگر صدر پاکستان نے اپنے خطاب میں ذکر تک نہیں کیا۔ مشترکہ مفادات کونسل کے دفتر کے قیام جیسے چھوٹے مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکا سینٹ کے اختیارات کے حوالے سے بات نہیں کی گئی 18ویں ترمیم سے تجاوز کیا جارہا ہے یہ آئینی مسائل ہیں مگر صدر کے خطاب میں اس پر مکمل خاموشی تھی۔ فاٹا ریفارمز کے حوالے سے فاٹا کے حقوق کا خیال ہی نہیں کیا گیا فاٹا ریفارمز کممیٹی میں فاٹا کے عوامی نمائندوں کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ سی پیک منصوبوں میں بلوچوں ‘ پشتونوں اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے ساتھ زیاددتی ہوئی ہے بلوچستان سے نکلنے والی گیس سے وہاں کے لوگوں کو محروم رکھا جارہا ہے۔ صدر پاکستان جتنے اس حکومت سے مطمئن ہیں اتنے وزیراعظم بھی مطمئن نہیں ہیں۔ سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ کسی بھی ملک کے سال میں ایک دفعہ خطاب میں آنے والے وقتوں کیلئے ویژن دیا جاتا ہے مگر ہمارے صدر کے خطاب میں مسلم لیگ (ن) کا ویژن بیان کیا گیا ہمارے صدر نے سیکشن افسرکی لکھی ہوئی تقریر پر بحث بے سود ہے۔ تجربہ کار حکومتی سینیٹرز صرف اس پر بحث کرکے ہمارے کانوں پر گراں گزرے۔ (ن غ/ ع ح)