خبرنامہ پاکستان

کراچی: انسانی حقوق کی خلاف ورزی کےحوالےسےرینجرزکی رپورٹ جعلی، فرحت اﷲ بابر

اسلام آباد (آئی این پی) سینٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے رینجرز کی طرف سے پیش کی گئی انسانی حقوق کمیشن برائے جنوبی ایشیاء کی رپورٹ جعلی ہے‘ انسانی حقوق کمیشن برائے جنوبی ایشیاء ایک جعلی تنظیم ہے‘ تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر پاکستان کے نمائندوں کے طور پر رحیم اﷲ یوسفزئی اور سندھ کے ایک شخص کا نام لکھا تھا جب ان سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ اس کے نمائندے نہیں ہیں‘ انہوں نے اس حوالے سے کسی رپورٹ اور اپنے بارے میں تنظیم کا رکن ہونے کی تردید کی ہے‘ رینجرز پاک فوج کا ادارہ ہے بے حد افسوس ہے کہ رینجرز جیسے ادارے کو بدنام کرنے کے لئے رینجرز کو جعلی تنظیم کی رپورٹ پیش کی گئی‘ اس حوالے سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو تحقیقات کرنا چاہئیں‘سینیٹر علی خان سیف نے کہا کہ کچھ عرصے سے زیر تفتیش کیسز کی تحقیقات میڈیا پر نشر کی جارہی ہیں اور پھر پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے بعض سربراہان ٹی وی پر بیٹھ کر ان کیسز پر ایسے تبصرے کرتے ہیں جیسے وہ بہت بڑے تجزیہ کار ہوں جن میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پیش پیش ہیں وہ آج کل ہر ٹی وی چینل پر بیٹھ کر زیر تفتیش کیسز پر تجزیے کرتے ہیں، انہیں پولیس کے اعلیٰ افسران اور وزارت داخلہ کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں حالانکہ وہ افسران کی ہدایت کے بغیر اس طرح سے تجزیہ نہیں کرسکتے، چیئرپرسن کمیٹی نے ہدایت کی کہ یہ معاملہ پیمرا سے ڈسکس کیا جائے جبکہ وزارت داخلہ سے بھی اس معاملے پر بات کی جائے، چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کوئٹہ میں حالیہ بم دھماکے میں شہید بیرسٹر انور کاسی سمیت دیگر وکلاء کے حوالے سے بھی رپورٹ طلب کر لی کہ بتایا جائے وہ کن کیسز کی پیروی کر رہے تھے، جبکہ چیئر پرسن نے وزارت انسانی حقوق کو سیکشن آفیسرز کی تنخواہوں کا معاملہ فوری طور پر حل کرنے کی ہدایت کی ۔ منگل کو سینٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرپرسن نسرین جلیل کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر فرحتہ اﷲ بابر‘ سینیٹر مفتی عبدالستار‘ سینیٹر محمد علی خان سیف‘سینیٹر ستارہ ایاز‘ سینیٹر سحر کامران سمیت دیگر اراکین نے شرکت کی۔ کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ دو برسوں میں بلوچستان میں مختلف واقعات میں جاں بحق 1200افراد کے قتل کیسز میں پیش رفت کے حوالے سے آئی جی بلوچستان اور آئی جی ایف سی کی طرف سے بریفنگ دیگئی۔ چیئرمین این سی ایچ آر کی طرف سے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ کمیٹی کے اجلاس میں ڈی جی سندھ رینجرز کی طرف سے پیش ہو کر کراچی میں چھ ہزار افراد کی گرفتاری ‘ ان سے کی گئی تحقیقات‘ رینجرز کی تحویل میں آفتاب احمد کی ہلاکت بارے پیش رفت اور کراچی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بارے سویڈن کی این جی او کی رپورٹ کے حوالے سے بریفنگ دی جانا تھی تاہم ڈی جی رینجرز سندھ کمیٹی میں پیش نہ ہوسکے۔ چیئرپرسن کمیٹی نسرین جلیل نے رینجرز حکام کو آئندہ اجلاس میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں انسانی حقوق کمیشن برائے جنوبی ایشیاء کی رپورٹ پر غور کیا گیا جو کہ رینجرز کی جانب سے گزشتہ اجلاس میں پیش کی گئی تھی۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے انکشاف کیا کہ انسانی حقوق کمیشن برائے جنوبی ایشیاء کی رپورٹ جعلی ہے۔ نسانی حقوق کمیشن برائے جنوبی ایشیاء ایک جعلی تنظیم ہے‘ تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر پاکستان کے نمائندوں کے طور پر رحیم اﷲ یوسفزئی اور سندھ کے ایک شخص کا نام لکھا تھا جب ان سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ اس کے نمائندے نہیں ہیں‘ انہوں نے اس حوالے سے کسی رپورٹ اور اپنے بارے میں تنظیم کا رکن ہونے کی تردید کی ہے‘ رینجرز پاک فوج کا ادارہ ہے بے حد افسوس ہے کہ رینجرز جیسے ادارے کو بدنام کرنے کے لئے رینجرز کو جعلی تنظیم کی رپورٹ پیش کی گئی‘ اس حوالے سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو تحقیقات کرنا چاہئیں جس پر چیئرپرسن کمیٹی نسرین جلیل نے یہ معاملہ وزارت داخلہ اور دیگر متعلقہ حکام کے سامنے اٹھانے کی ہدایت کردی۔ اجلاس میں توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال روکنے سے متعلق ایجنڈے پر بحث کے دوران سینیٹرفرحت اﷲ بابر کا کہنا تھا کہ توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ این سی ایچ آر کے چیئرمین نے اچھی سفارشات دی ہیں قانون کا غلط استعمال روکنے کے لئے جہاں سے بھی رہنمائی ملے لینی چاہئے۔ سینیٹر میر کبیر کا کہنا تھا کہ توہین رسالت قانون پر عمل درآمد سے متعلق تحفظات ہیں۔ سینیٹر نثار محمد خان کا کہنا تھا کہ قانون پر عمل ددرآمد سے متعلق علماء سے مشاورت کی جانی چاہئے۔ دیگر اسلامی ممالک میں توہین رسالت قوانین کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔ سینیٹر ستارہ ایاز کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر تفصیلی بات چیت ہونی چاہئے تاکہ قانون کا غلط استعمال ہونے سے روکا جائے اس میں علماء سے مشاورت ضروری ہے۔ سینیٹر مفتی عبدالستار نے بھی علماء سے مشاورت کو لازمی قرار دیا۔ سینیٹر محمد علی خان سیف کا بحث کے دوران کہنا تھا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے نیچے کی عدالتیں سمجھوتے پر مبنی فیصلے دیتی ہیں سیشن ججز کو سکیورٹی خطرات ہوتے ہیں انصاف کے نظام میں خرابیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ چیئرپرسن کمیٹی کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مزید بحث ضروری ہے چار ہفتے کے بعد اس معاملے پر دوبارہ اجلاس کریں گے جس میں سول سوسائٹی کو بھی بلایا جائے گا۔ اجلاس کے دوران سینیٹر علی خان سیف نے کہا کہ کچھ عرصے سے زیر تفتیش کیسز کی تحقیقات میڈیا پر نشر کی جارہی ہیں اور پھر پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے بعض سربراہان ٹی وی پر بیٹھ کر ان کیسز پر ایسے تبصرے کرتے ہیں جیسے وہ بہت بڑے تجزیہ کار ہوں جن میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پیش پیش ہیں وہ آج کل ہر ٹی وی چینل پر بیٹھ کر زیر تفتیش کیسز پر تجزیے کرتے ہیں۔ انہیں پولیس کے اعلیٰ افسران اور وزارت داخلہ کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں حالانکہ وہ افسران کی ہدایت کے بغیر اس طرح سے تجزیہ نہیں کرسکتے۔ سیکرٹری انسانی حقوق کی طرف سے اس پر موقف اختیار کیا گیا کہ قانون میں اس کی اجازت نہیں یہ معاملہ پیمرا کے دائرہ کار میں آتا ہے پیمرا سے یہ معاملہ اٹھایا جاسکتا ہے جس پر چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ یہ معاملہ پیمرا سے ڈسکس کیا جائے جبکہ وزارت داخلہ سے بھی اس معاملے پر بات کی جائے۔ چیئرپرسن کمیٹی نے کوئٹہ میں حالیہ بم دھماکے میں شہید بیرسٹر انور کاسی سمیت دیگر وکلاء کیحوالے سے بھی رپورٹ طلب کر لی کہ بتایا جائے وہ کن کیسز کی پیروی کر رہے تھے۔ چیئر پرسن کمیٹی نے وزارت انسانی حقوق کووزارت کے سیکشن آفیسرز کی تنخواہوں کا معاملہ بھی فوری طور پر حل کرنے کی ہدایت کی ۔(ن غ/ ا ر)