منتخب کردہ کالم

اتھری غزل کا بوجھ کیسے اٹھایا جائے؟……حسنین جمال

اتھری غزل کا بوجھ کیسے اٹھایا جائے؟……حسنین جمال

غزل کی کہانی بڑی عجیب و غریب ہے۔ شاعر بیٹھا ہوا ہے‘ سوچ رہا ہے، ایک آدھا شعر پھڑکتا ہوا تو نازل ہو گیا‘ اب چھ سات اور شعر کہنے ہیں، مطلع اور مقطع جوڑنا ہے، پوری فلم تیار کرنی ہے۔ فلم ایسی ہو گی جس میں دس دس منٹ کے دس سین ہوں گے‘ جن کی کہانی بالکل الگ الگ ہو گی لیکن وہ 100 منٹ کی فلم زبردستی کہلائی جائے گی۔ کیا ہم دس منٹ کی ایک فلم کو شارٹ فلم کہہ سکتے ہیں؟ بالکل کہہ سکتے ہیں، تو ایک الگ شعر یا دو شعر ایک ہی ردیف قافیے میں کہنے کے بعد ہم صبر کیوں نہیں کر سکتے؟ دیکھیے اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری خدا کی عطا ہے، اوپر سے وارد ہوتی ہے اور بندہ کہتا چلا جاتا ہے لیکن بھرتی کے شعر بھی تو اسی دنیا میں ہوتے ہیں، ان کا علاج کیا ہو سکتا ہے؟
اچھے اچھے شاعروں کی طویل غزلوں میں سے ایک دو شعر پوری دنیا کو یاد رہ جاتے ہیں اور باقی غزلیں غرق ہو جاتی ہیں۔ غرق نہ بھی ہوں تو صرف تحقیق کرنے والوں کی جگالی میں کام آتی ہیں کہ بھائی جان یہ جو آپ فلاں شعر مست ہو کے پڑھتے ہیں، یہ کس غزل میں سے چنا گیا‘ کیا آپ کو علم ہے؟ اس کے بعد فاتحانہ انداز میں پوری غزل پیش کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھائی جان کیوں پوری غزل پڑھیں، شعر تو وہی تھا جو خود اپنے پیروں پہ چل کے دوڑ گیا اور پوری دنیا میں بھاگتا پھر رہا ہے، زبردستی کے دم چھلے دوبارہ باندھنے میں ایک عام شریف انسان کیا دلچسپی رکھ سکتا ہے؟ مثال کے طور پہ سودا کا ایک شعر لیتے ہیں؛
وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
یہ وہ شعر ہے جو لاکھ پریکٹس کرنے پہ بھی خود سے نہیں کہا جا سکتا، آ گیا، خیال وارد ہوا اور شعر ہو گیا۔ یہ مطلع تھا یعنی پہلا شعر تھا، اب اس کے ساتھ آٹھ شعر اور بھی جڑے ہوئے ہیں۔ زبان کی خوبصورتی… کیا کہنے، کلام کی بلاغت… کوئی شک نہیں، خوبصورت اور بھاری بھرکم الفاظ… متاثر کن، لیکن وہ سب باقی شعر جو تھے وہ مشاعرے کی واہ واہ میں تو کام آ سکتے ہیں، یا کوئی بدنصیب شاگرد ان کی تشریحیں کرتا پھرتا ہو گا، پڑھنے والا لے اڑا جو اسے چاہئے تھا اور وہ شعر خود بہ خود امر ہو گیا۔ اپنے زور بازو پہ ہوا۔ ریختہ ڈاٹ او آر جی پہ جا کے سرچ کیجیے، پوری غزل ملے گی، کوئی ایک شعر نکال لیں جو ایسا چست ہو… تو بس یہ ہوتا ہے۔
کلیم الدین احمد نے کہا کہ غزل نیم وحشی صنف سخن ہے، حالی کچھ پریشان رہے کہ یار کوئی بچوں کو سدھارنے والی غزل کہو، عظمت اللہ خان کہتے تھے‘ سرے سے غزل کی گردن اتار دو، فراق گورکھپوری اور مسعود حسن رضوی ادیب نے ان سب کو طبیعت سے ٹھیک ٹھاک جواب دئیے لیکن بات وہیں کی وہیں رہی۔ سوال صرف یہ ہے کہ مشاعرے کے علاوہ، عام حالات میں ایک معصوم سے پڑھنے والے پہ ایک اچھے شعر کے ساتھ چار پانچ ہلکے اور بھرتی کے شعروں کا وزن کیوں لادا جائے؟ مسلسل غزل سمجھ میں آتی ہے، مرثیہ پلے پڑتا ہے، مثنوی (کتنی ہی لغو کیوں نہ ہو) دیکھی جا سکتی ہے، قصیدے باوجود خوشامد سے لبریز ہونے کے، پڑھے جا سکتے ہیں کہ یہ سب ایک تھیم کو لے کر آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں، اتھری غزل کا بوجھ کیوں اور کیسے اٹھایا جائے؟
اس میں ایک رعایت چلیے اس چیز کی بھی رکھتے ہیں کہ غزل موسیقی سے قریب تر ہے۔ اسے گایا جا سکتا ہے، سننے میں بھلی لگتی ہے لیکن وہاں پھر وہی مسئلہ کھڑا ہے کہ گائیک تو بے چارہ سات سروں کے اندر قید ہو اور غزل پوری کائنات میں کدکڑے لگاتی پھرے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔ جگجیت جب سدرشن فاکر کی وہ غزل گاتا ہے ”شاید میں زندگی کی سحر لے کے آ گیا‘‘ تو پورا ماحول بنتا ہے کیونکہ چاروں شعر آپس میں جڑے ہوئے ہیں، ایک ہی مرکزی خیال کے ہیں‘ لیکن جیسے ہی وہ بہادر شاہ ظفر پہ آتا ہے اور ”بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی‘‘ گانے لگتا ہے تو پہلے دو شعر ادا کرنے کے بعد سیدھا سیکنڈ لاسٹ شعر پہ چھلانگ لگاتا ہے اور اس کے بعد غزل ختم۔ وجہ کیا ہے، بیچ کے پانچ شعروں میں کوئی فنی خرابی ہے، یا وہ موسیقیت سے باہر ہیں؟ کچھ بھی نہیں، سوائے یہ کہ ان کی نازک تمثیلیں سننے والے کو شاعر کی بے قراری کی بجائے فنی مہارت کا پتہ زیادہ بتاتی ہیں اور معاملہ وہی غزل کے تابوت میں دفن ہو جاتا ہے۔
اچھا شعر تو اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ شاعر تک کو دفن کر دیتا ہے‘ کجا یہ کہ اس کے ساتھ ایک لمبی ریل گاڑی بنائی جائے اور نیلے پیلے ڈبے جوڑے جائیں۔ سراج لکھنوی کا نام سنا ہے کبھی؟ فقیر بھی جاہل ہے، اس نے بھی نہیں سنا۔ شعر دیکھیے؛ آپ کے پاؤں کے نیچے دل ہے / اِک ذرا آپ کو زحمت ہو گی۔ برج نرائن چکبست کو اردو میں ایم اے کرنے والوں کے سوا کون جانتا ہے؟ شعر ملاحظہ ہو؛ زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہور ترتیب/ موت کیا ہے؟ انہیں اجزا کا پریشاں ہونا۔ فانی بدایونی موت کے شاعر تھے۔ جیتے جی میت کے وہ وہ سین باندھتے تھے کہ پڑھنے والا خود کشی کر لے، ان کے حالات بھی خاصے تکلیف دہ رہے، کچھ ان کا انداز ہی ایسا تھا لیکن ایک شعر ان کے بھی سارے کلام پہ حاوی ہو گیا اور یہ ان کے روایتی ڈھنگ کا تھا ہی نہیں، ”ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا/ بات پہنچی تری جوانی تک‘‘۔ اسی طرح صفی لکھنوی نے بھی دنیا جہان کی اصلاحی شاعری کی، خوب داد سمیٹی لیکن جس شعر نے ان سے تعارف کروایا وہ یہ تھا؛ غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا/ ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا۔
یہ بات لیکن شعر کہنے والے کو نہیں سمجھائی جا سکتی۔ ان کے لیے ذاتی شاعری میں سے بھرتی کے یا کمزور شعر نکالنا اپنی اولاد کو مارنے جیسا ہوتا ہے‘ لیکن یہ دیکھیے کہ جب غالب کتنا کچھ مسترد کرکے ایک باریک سا دیوان لا سکتے ہیں، جون ایلیا ”شاید‘‘ میں اپنا ہر رنگ بہ کمال خوبی دکھا سکتے ہیں، محبوب خزاں ساری عمر گزار کے ”اکیلی بستیاں‘‘ کا سا انمول تحفہ دے سکتے ہیں، علی افتخار جعفری مرحوم (ہائے ہائے کیا جواں مرگ شاعر تھے، شعر دیکھیے؛ رکھنے والے نے عجب ڈھنگ سے رکھا ہے ہمیں/ سبز ہوتے بھی نہیں شاخ سے جھڑتے بھی نہیں) بیس اکیس برس شاعری کے بعد ”مٹی ملے خواب‘‘ جیسی کتاب دے سکتے ہیں جو سو صفحوں سے بھی کم ہے، تو بھائی، کم از کم انتخاب کا معیار تو ایسا رکھا جا سکتا ہے جو پڑھنے والے کی آنکھیں روشن کر دے۔ یا اتنا ہی ہو جائے کہ شاعر خود غزلوں کی لمبائی کم کر دیں۔ بڑے بڑے اساتذہ کی غزلیں جب طوالت کا شکار ہوتی ہیں تو اچھے شعر بیچ میں کہیں کھو جاتے ہیں۔ عام پڑھنے والے تو ایک طرف‘ نقاد بھی پک جاتے ہیں۔
کلوزنگ یوں کرتے ہیں کہ غزل کی جو فلم ہے وہ اگر تھوڑا سا بھی ربط رکھتی ہو، ایک موڈ ہو جو ہر شعر پہ طاری ہو، غیر ضروری صنعتیں بیچنے کی بجائے کام کی بات کی جائے، جو شعر اترا ہو اس کے ساتھ زیادہ پخیں نہ جوڑی جائیں تو غزل کے خلاف کبھی کسی کی مجال ہی نہیں ہو گی جو بات کر جائے۔ اب اس صورت میں کہ جب ہر دوسرا بندہ شاعر ہے (اور یہ معاملہ دلی اجڑنے سے پہلے کا چلا آ رہا ہے، اور بے شک جو چیز زمانے کے ہر حادثے میں سے یوں نکل آئی جیوں مکھن میں سے بال، وہ شاعر اور ان کی شاعری ہی ہے) تو کسی چپڑقنات کی بے جا تنقید بھی انشاللہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ ادھر تو پرورش لوح و قلم کا بھی کوئی دعویٰ نہیں‘ بس اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے۔