منتخب کردہ کالم

احتساب کا حساب کتاب…حسن نثار

یہ حکومتیں

احتساب کا حساب کتاب…حسن نثار

’’احتساب کا حساب کتاب‘‘قارئین! یہ کالم 21سال ایک ماہ 18دن پہلے شائع ہوا، عنوان بھی یہی تھا غور فرمائیے۔مجھے کوئی پوچھے کہ ملکی مسائل کے حل کا’’اسم اعظم‘‘ کیا ہے تو میں تین باتیں عرض کروں گا۔انصاف عام ہو۔احتساب سرعام ہو۔اقتدار میں’’عوامی نمائندوں‘‘ کی نہیں…..عوام کی شرکت اور شراکت کو یقینی بنایا جائے۔اس’’تین نکاتی ایجنڈے‘‘ میں انصاف سے کیا مراد ہے؟ اور اقتدار اعلیٰ میں’’عوامی نمائندوں‘‘ کے بجائے عوام کی شرکت اور شراکت سے کیا مراد ہے؟ اس پر پھر کبھی کھپ کھپا لیں گے، آج اپنی سوچ بچار احتساب کے حساب کتاب تک محدود رکھتے ہیں کیونکہ۔احتساب تو نہیں….. احتساب کے چرچے آج کل بہت عام ہیں۔ اپوزیشن لیڈر سے لے کر صدر مملکت تک’’احتسابیات‘‘ پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔محترمہ کی اس مسئلے پر مزاحمت بھی دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ کیا واقعی موسم احتساب کی آمد آمد ہے؟کیا سچ مچ بھرپور، مکمل اور جینوئن احتساب ہوگا؟کیا واقعی اس کا دائرہ سیاستدانوں سے لے کر بیورو کریٹوں اور صنعت کاروں تک پھیلا ہوا ہوگا؟یا یہ احتساب بھی اغواء کرلیا جائے گا…..ہائی جیک ہوجائے گا؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ حکمران طبقات کرپشن اور لوٹ مار کی اس انتہا پر بڑھتے ہوئے عوامی غصے کے غبارے سے کچھ ہوا نکالنے کے لئے احتساب کے ڈرامے کے لئے اسٹیج کی تیاری میں مصروف ہیں تاکہ جعلی احتساب کا جھنجھنا عوام کے ہاتھوں میں دے کر دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل کی لوٹ مار کا عمل مزید چند سالوں کے لئے محفوظ اور ’’رسک فری‘‘ کرلیا جائے۔اس سلسلے میں بہت سے سوال اور خدشات ہیں جن میں سے چند پر روشنی ڈال کر باقی کام میں اپنے ذہین قارئین کے زرخیز خیال اور تصورپر چھوڑے دیتا ہوں۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس دن اس ملک میں جینوئن اور حقیقی احتساب کی بو پھیلی….. بہت سے لوگ بلکہ خاندان، پاکستان چھوڑ جائیں گے کیونکہ بیرونی ممالک میں اثاثے بنانے اور غیر ملکی بینکوں میں بھاری رقوم جمع کرانے والوں کی یہ ساری حرکتیں دراصل اس حکمت عملی کا حصہ ہیں کہ جب کبھی خطرہ محسوس ہوا، راتوں رات ملک چھوڑ کر فرا ر ہوجائیں اور باقی عمر کسی’’مہذب ملک‘‘ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کریں۔ یہ طبقہ خطرناک حد تک’’خبردار‘‘ ہے لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس ملک کے کرپٹ ترین لوگ بھی بلند آواز میں ’’احتساب احتساب‘‘ پکار رہے ہیں جو قبل ا ز وقت ہی اس سارے عمل کو کم از کم میری نظروں میں’’مشکوک‘‘ بنائے دے رہا ہے۔یہاں میں’’اپنی نظر‘‘ کی وضاحت کردوں بلکہ اپنا تعارف کرادوں کہ میں خدانخواستہ کوئی ’’نابغہ‘‘ یا دانا سیانا شخص نہیں ہوں لیکن ایک بات جانتا ہوں کہ ایک خاص طرح کے علم کا نزول دماغ پر نہیں دلوں پر ہوتا ہے اور میں اپنی کسی بھی حس یا حساس ادارے کے بجائے اپنی چھٹی حس پر زیادہ اعتبار کرتا ہوں اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری چھٹی حس نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا۔ ایمان کی بات ہے کہ زندگی میں اپنے محدود علم ک ہاتھوں کئی مرتبہ مار کھائی ہے لیکن اس ناکارہ اور آوارہ آدمی کو اس کے آوارگی زدہ وجدان نے کبھی دھوکہ نہیں دیا۔میرا وجدان کہتا ہے کہ احتساب نہیں….. احتساب کا محض ڈرامہ رچانے اور خلق خدا کو پرچانے کے لئے انتظامات ہورہے ہیں تاکہ عوامی نفرت کی رفتار کم کی جاسکے….. اس کا رخ موڑا جاسکے اور صورتحال کو کچھ عرصہ کے لئے ہی سہی’’ڈی فیوز‘‘ کیا جاسکے۔خدا کرے میرا یہ خدشہ غلط ثابت ہو لیکن جب میں جانے پہچانے اور منے پرمنے لٹیروں کو بھی ’’احتساب احتساب‘‘ کرتے دیکھتا ہوں تو میرے اندر کا حساب کتاب مجھے کوئی اور ہی جواب دیتا ہے اور میں خود کو اس بات پر مجبور پاتا ہوں کہ اس ملک کے بھولے بھالے عوام کو بروقت اپنے اندیشوں اور خدشوں میں شریک کرلوں تاکہ وہ اقتدار مافیا کی مکاری کے ہاتھوں زک اٹھانے اور ایک نیا دھوکہ کھانے سے بچ سکیں۔ ایک اور امکان یا خدشہ’ ’احتساب‘‘ کے ’’اغواء‘‘ کا بھی ہے کہ جس ملک کو آزادی ملتے ہی ایک فاسق و فاجر اقلیت اس کی آزادی اغواء کرکے اسے کبھی آمریت اور کبھی آمریت زدہ جمہوریت کے زندان میں پھینک سکتی ہے، وہی خونخوار اور فنکار اقلیت….. احتساب کو اغواء کیوں نہیں کرسکتی؟ اس سارے عمل کو سبوتاژ اور تار پیڈو کیوں نہیں کرسکتی؟یہ تو تھے امکانات اور خدشات لیکن دوسری طرف عدلیہ سے لے کر ایوان صدر تک امید کے کچھ جگنو اور چراغ بھی ٹمٹاتے دکھائی دیتے ہیں۔ عدلیہ نے تو کرپشن کی ایسی تعریف(Defination)پیش کی ہے کہ روح نہال ہوگئی۔ایک فاضل جج نے چند روز پہلے فرمایا۔’’نااہلی اور نالائقی بھی کرپشن ہی کی ایک قسم ہے۔‘‘اور واقعی’’ کرپشن صرف مالی ہی نہیں‘‘ جذباتی اور استعدادی بھی ہوتی ہے۔ادھر صدر کی جانب سے کرپشن کے خاتمے کے سلسلے میں لکھے گئے خطوط کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں کو ایک اہم سرکلر جاری کردیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ فوری طور پر اپنی دس سالہ کارکردگی کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرتے ہوئے 1993ء سے لے کر 1996ء تک قرضے معاف کرانے والوں کی پوری فہرست، پوری تفصیلات کے ساتھ مہیا کریں۔ امید ہے کہ ایسے ریکارڈ کی طلبی احتساب کمیشن کی تشکیل کا ابتدائی مرحلہ ہے اور اس کمیشن کے بنتے ہی تمام سیاسی، انتظامی اور کاروباری بدعنوان عناصر کے خلاف احتسابی عمل کا آغاز ہوجائے گا۔اللہ کرے…..ایسا ہی ہو۔احتساب ہو اور بے حساب ہو۔احتسابی عمل مسلسل اور مستقل ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک شعبے یا کسی ایک جہت تک محدود نہ ہو کہ صرف’’قرضہ خور‘‘ مافیا نے ہی ملک نہیں لوٹا، رشوت اور کمیشن خوروں نے بھی اس ملک کو کھوکھلا کردینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مہنگائی بھی دراصل اسی’’کرپشن‘‘ کے انڈوں بچوں میں سے ایک ہے اور ملکی معیشت کے گلے میں خوفناک قرضوں کی لعنت کا طوق بھی اسی’’کرپشن‘‘ کی ناجائز اولاد ہے۔احتساب کے حساب کتاب میں ایک اور پہلو انتہائی اہم ہے کہ اس سلسلے میں’’عینی شہادتوں‘‘ کے بجائے ’’واقعاتی شہادتوں‘‘ پر انحصار کیا جائے کہ کوئی کرپٹ اپنی کرپشن کے ’’ثبوت ‘‘ نہیں چھوڑتا اور حرام کا وجود ہی اس کے حرام ہونے کی سب سے بڑی گواہی ہوتا ہے۔اور اگر احتساب کے نام پر اندر خانے کوئی اور ہی حساب کتاب ہوا….. تو حکمران طبقہ جان لے کہ اس سے وقتی طور پر تو جان چھوٹ جائے گی لیکن انہیں جلد ہی اس امتحان سے گزرنا ہوگا۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، یہ امتحان سخت سے سخت تر ہوتا چلا جائے گا کہ….. ’’100 دن چور کے‘‘ کے بعد ایک دن’’سادھ‘‘ کا بھی آنا ہی ہوتا ہے۔