منتخب کردہ کالم

ارکان اسمبلی نے استعفے دیئے تو ضمنی انتخاب ہوں گے

ارکان اسمبلی نے استعفے دیئے تو ضمنی انتخاب ہوں گے
تجزیہ:سعید چودھری
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو مارچ 2018ء میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات سے قبل گرانے کے لئے مختلف سازشی تھیوریاں پیش کی جارہی ہیں جن میں سے ایک کی بنیاد ارکان اسمبلی کے استعفوں کی تجویز پر مبنی ہے ۔کیا قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان کے استعفوں کے بعد آئینی طور پر عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوگا؟ اور دوسرا یہ کہ کیا کسی صوبائی اسمبلی کی تحلیل سینیٹ کے آئندہ انتخابات کو متاثر کرسکتی ہے ؟ آئین کے آرٹیکل 52کے تحت قومی اسمبلی کی معیاد 5سال مقرر ہے تاوقتیکہ اسے قبل ازوقت تحلیل نہ کردیا جائے ۔آئین کے آرٹیکل 58(1)کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے ۔موجودہ قومی اسمبلی کے ارکان نے یکم جون 2013ء کو اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا تھا جس کا مطلب ہے کہ یہ اسمبلی 31مئی 2018ء کو اپنی 5سالہ مدت پوری کرکے خود بخود تحلیل ہوجائے گی ،آئین کے آرٹیکل 224(1)کے مطابق اسمبلی کی معیاد ختم ہونے کے بعد60روز کے اندر عام انتخابات کروائے جاتے ہیں تاہم آرٹیکل224(2)میں کہا گیا ہے کہ اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کردیا جائے تو تحلیل کئے جانے کے بعد 90دنوں کے اندر عام انتخابات ہوں گے ۔آئین کے آرٹیکل 224کے ضمنی آرٹیکل 4کے مطابق اگر اسمبلی کی کوئی نشست کسی وجہ سے خالی ہوجائے تو 60روز کے اندر اس پر ضمنی الیکشن ہوگا تاہم اگر قومی اسمبلی کی کوئی نشست اس وقت خالی ہوتی ہے جب اسمبلی کی معیاد ختم ہونے میں 120روز باقی ہوں تو پھر اس پر ضمنی الیکشن نہیں ہوگا بلکہ وہ سیٹ عام انتخابات تک خالی رکھی جائے گی۔حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی کی طرف سے استعفے دئیے جانے کے بعد آئینی طور پر عام انتخابات نہیں کروائے جاسکتے بلکہ ان کی استعفوں سے خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے ۔آئین کے تحت ضمنی انتخاب میں کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی 5سال کے لئے نہیں بلکہ موجودہ اسمبلی کی مدت کے خاتمہ تک کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔جو جماعتیں قومی اسمبلی سے استعفے دیں گی ان سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ ضمنی الیکشن میں حصہ لیں گی ایسی صورت میں ان ضمنی انتخابات کامسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہوگا ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حزب اختلاف کے استعفوں سے اسمبلی کی کارروائی یا حکومت کا کاروبار رک جائے گا؟ آئین کے آرٹیکل 55کے تحت قومی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد کا ایک چوتھائی اجلاس میں موجود ہونا ضروری ہے ۔اس وقت قومی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد 342ہے ،دوسرے لفظوں میں اسمبلی اجلاس کا کورم پورا کرنے کے لئے 86ارکان کی موجودگی ضروری ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس قومی اسمبلی کی 188نشستیں ہیں ۔اگر نادیدہ قوتوں کے زیراثر مسلم لیگ (ن) کے 86کے سوا دیگر تمام ارکان بھی مستعفی ہوجاتے ہیں تو آئینی طور پر نہ صرف قومی اسمبلی کے اجلاس ہوسکتے ہیں بلکہ حاضر ارکان سادہ اکثریت سے قانون سازی بھی کرسکتے ہیں ۔بہت بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی کے استعفوں کی صورت میں حکومت پر قبل از وقت عام انتخابات کروانے کے لئے شدید دباؤ ہوگا جبکہ وزیراعظم کو اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کرنے کے لئے مختلف سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں متحرک ہوسکتی ہیں تاہم ان استعفوں کے باوجود عام انتخابات کروانا آئینی تقاضا نہیں ہوگا۔یہ حکومت پر ہوگا کہ وہ دباؤ برداشت کرتی ہے یا پھر اس کے وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دیتے ہیں ۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی اپنی مدت 31مئی 2018ء کو پوری کررہی ہے ،اگرارکان اسمبلی 31مئی سے 4ماہ قبل یعنی یکم فروری 2018ء کے بعد استعفے دیتے ہیں تو پھر خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات نہیں ہوں گے اور یہ نشستیں آئندہ عام انتخابات تک خالی رہیں گی ۔شیخ رشید اور ان جیسے دیگر سیاستدان فروری 2018ء میں تبدیلی کی باتیں کررہے ہیں تو شاید اس کے پیچھے استعفوں کا آپشن ہی ہے تاہم ان استعفوں کی بنیاد پر عام انتخابات نہیں کروائے جاسکتے تاوقتیکہ وزیراعظم خود اسمبلی تحلیل نہ کردیں ۔86ارکان کے سوا پوری اسمبلی بھی مستعفی ہوجائے تو آئینی طور پر کاروبار سلطنت اور اسمبلی کی کارروائی بشمول قانون سازی جاری رکھی جاسکتی ہے ۔یہاں تک سینیٹ کے انتخابات سے قبل خیبر پختونخوا اور صوبہ سندھ کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا تعلق ہے اس کا نقصان پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ہوگا ،اس وقت کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف اور سندھ اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہے ،اگر یہ اسمبلیاں موجود رہتی ہیں تو یہ جماعتیں اپنے سینیٹر منتخب کرواسکتی ہیں ۔یہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں ان صوبوں کے سینیٹر ز کا الیکٹورل کالج (حلقہ انتخاب) موجود نہیں ہوگا اور وہاں سینیٹ کا الیکشن نہیں ہوسکے گالیکن جن صوبوں میں صوبائی اسمبلیاں موجود ہوں گی وہاں اپنے وقت پر یہ الیکشن ہوگا ۔آئین کے آرٹیکل 59کے تحت ہر صوبائی اسمبلی صرف اپنے صوبہ کے لئے مختص سینیٹ کی سیٹوں پر سینیٹرز کا انتخاب کرتی ہے ،حزب اختلاف کو اصل مسئلہ پنجاب سے سینیٹرز کے الیکشن سے ہے کیوں کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو واضح اکثریت ہے اور یہاں سے مسلم لیگ(ن) کے سینیٹرز کا منتخب ہونا یقینی خیال کیا جاتا ہے جس کے بعد سینیٹ میں پارٹی پوزیشن مسلم لیگ(ن) کے حق میں چلے جانے کا امکان موجود ہے ۔آئندہ عام انتخابات میں ضروری نہیں کہ سندھ اور کے پی کے میں اس وقت حکمران جماعتوں کو وہاں کی صوبائی اسمبلیوں میں دوبارہ اتنی بڑی اکثریت حاصل ہوجائے اگر معاملہ الٹ ہوگیا تو یہ جماعتیں اپنے اتنے سینیٹرز منتخب نہیں کرواسکیں گی جتنے وہ موجودہ صوبائی اسمبلیوں سے کرواسکتی ہیں ۔آئینی صورتحال جو بھی ہو ارکان اسمبلی کے استعفوں سے حکومت پر قبل از وقت عام انتخابات کروانے کے لئے دباؤ اتنا شدید ہوگا کہ اس سے نبردآزما ہونے کے لئے چیتے کا جگر چاہیے ۔