منتخب کردہ کالم

اورنج ٹرین منصوبہ رکوانے کے خواہش مندناکام تجزیہ قدرت اللہ چوہدری

اورنج ٹرین منصوبہ رکوانے کے خواہش مندناکام تجزیہ قدرت اللہ چوہدری

سپریم کورٹ نے اورنج لائن ٹرین منصوبے کو گرین سگنل دے دیا ہے تاہم اپنے فیصلے کو 31 شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے، پنجاب کی حکومت اس فیصلے پر خوش ہے، اگرچہ تاخیر کی وجہ سے منصوبے کی لاگت بڑھنے کا ا بھی امکان ہے، اورنج لائن ٹرین کے اس منصوبے کو رکوانے کیلئے جن لوگوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور اس منصوبے کو ختم کرنے کیلئے جو دلائل تراشے تھے ان میں سے بعض تو قابل توجہ تھے، لیکن بہت سے ایسے تھے جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں تھی، مثال کے طور پر لکشمی چوک میں بھی کام روکا گیا تھا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس سے تاریخی ’’لکشمی بلڈنگ‘‘ متاثر ہونے کا خدشہ ہے حالانکہ تاریخی حیثیت صرف اتنی تھی کہ یہ عمارت ایک پرائیوٹ عمارت تھی، اس کی شہرت اس لئے ہوگئی کہ جس زمانے میں یہ تعمیر کی گئی تھی اس وقت ایسی عمارتیں زیادہ نہیں تھیں، قیامِ پاکستان کے بعد یہ عمارت جن الاٹیوں کے نام الاٹ ہوئی انہوں نے کبھی اسے اس نظر سے نہیں دیکھا کہ یہ ایک تاریخی عمارت ہے، اس لئے اس کی حفاظت ہونی چاہئے نئے مالکان نے اسے اپنی ایک ملکیت کی طرح دیکھا، فرق صرف یہ پڑا ، کہ اسے ایک ہندو نے تعمیر کرکے اس کا نام اپنی دیوی کے نام پر رکھا اور اب اس کے مالکان مسلمان ہیں، اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو لکشمی بلڈنگ سے زیادہ اہم عمارتیں سینکڑوں کی تعداد میں اس شہر میں موجود ہیں ان کے قریب و جوار میں عمارتیں مسمار ہوتی اور نئی تعمیر ہوتی رہتی ہیں، ایسی عمارتیں بھی ملیا میٹ ہوگئیں جن کے ساتھ ہمارے مشاہیر کی یادیں وابستہ تھیں، ایسی عمارتیں بھی ختم ہوگئیں جہاں قیام پاکستان سے پہلے آزادی کی تحریکوں کے سلسلے میں اجلاس ہوتے تھے، موچی دروازے کا باغ اجڑ گیا اور اس کے گردا گرد بدصورت تجاوزات کا جنگل اُگ آیا، کسی نے کوئی پروا نہیں کی، شہید گنج کی مسجد کیا ہوئی جسے گوردوارہ بنا دیا گیاتھا۔ تو مسلمان اس کی حرمت کے لئے سینے پر گولیاں کھانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے، کیا نئی نسل کو معلوم ہے کہ شہید گنج کی یہ مسجد اب کہاں ہے؟ کیا یہ نسل جانتی ہے کہ یہ اب مسجد ہے یا گورد وارہ، لاہور تو پورا شہر ہی ایک تاریخ ہے۔ لوگوں کو چار میناروں والی چوبرجی تو یاد رہی لیکن یہ بھول گئے کہ یہ ایک ہرے بھرے باغ کا دروازہ تھا، یہ باغ کہاں چلا گیا؟ اس باغ کی جگہ پر آج ہزاروں عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں کیا ان کا کوئی مالک یہ چاہے گا کہ ان گھروں کو مسمار کرکے اسی طرح کا ایک باغ بنا دیا جائے جیسا مغل عہد میں تعمیر کیا گیا تھا؟
اورنج ٹرین کے راستے میں تو تیرہ تاریخی مقامات آتے تھے اس لئے یہ مطالبہ کیا گیا کہ یہ ٹرین تعمیر ہی نہیں ہونی چاہئے لیکن جو دوسرے ہزاروں تاریخی مقامات بغیر کسی وجہ کے اجڑ گئے ہیں کیا ان کی جانب کسی کی نظر نہیں جاتی، ان جملہ ہائے معترضہ کو ایک طرف رکھ کر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تحسین کی جانی چاہئے جس کی وجہ سے اورنج ٹرین اب پایہء تکمیل تک پہنچنا ممکن ہوگا، تاہم ابھی اس کے راستے میں بہت ’’دھرنے‘‘ آئیں گے۔ جن لوگوں کو لاہور میں چلتی ہوئی میٹرو بسیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں وہ کب چاہیں گے کہ ایک میگا پروجیکٹ اس انداز میں مکمل ہوکہ دیکھنے والے اسے تعمیر کرنے والوں کے گھُن گائیں؟ میٹرو بس اس وقت شاہدرہ اور گجومتہ کے درمیان تقریباً 27 کلو میٹر راستے پر چلتی ہے، جو چالیس منٹ میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہے، اگر کوئی شخص شاہدرہ سے گجومتہ جانے کیلئے دوسری پرائیوٹ بسوں، ویگنوں، رکشوں وغیرہ پر سفر کرے تو اس کے کئی گھنٹے صرف ہوجائیں گے، کرایہ بھی سو ڈیڑھ سو روپیہ لگ جائیگا جبکہ میٹرو بس میں صرف بیس روپے خرچ ہوتے ہیں، پیسے اور وقت کی یہ بچت ان غریبوں کیلئے بڑی اہمیت رکھتی ہے جن کی آمدنیاں محدود ہیں، لیکن اس پر معترض وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے گھروں میں کئی کئی گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماس ٹرانزٹ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہی وہ واحد نظام ہے جس کے ذریعے ریلوے سٹیشنوں اور ہوائی اڈوں کو آپس میں ملایا جاتا ہے، آپ لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر اتریں تو ہوائی اڈے کے اندر سے ہی زیر زمین ٹرین دستیاب ہے، یہ ٹرین پورے لندن کے مختلف روٹس پر چلتی ہے، لاکھوں افراد اس کے ذریعے سفر کرتے ہیں، یہی حال نیویارک اور واشنگٹن کی میٹرو ٹرینوں کا ہے، یہ ملک اس پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے عام آدمی کے لئے سفر کے اتنے اچھے انتظامات کئے ہیں جن ایئر پورٹس تک یہ ٹرین پہلے دستیاب نہیں ہے، اب اسے وہاں تک بھی توسیع دی جارہی ہے۔
اورنج ٹرین کے منصوبے پر ان مقامات کے سوا جہاں عدالتی حکم کے تحت تعمیر کا کام رکا ہوا تھا باقی منصوبے کا تعمیراتی کام تقریباً 80 فیصد مکمل ہے، واڑہ گوجراں کے شیڈ میں چین سے آنے والی کوچز بھی کھڑی ہیں، منصوبے کیلئے جتنی کوچز درکار ہیں ان کے بارے میں منصوبے کے نگران خواجہ احمد حسان نے اطلاع دی ہے کہ چین میں یہ سب کوچز تیار کرلی گئی ہیں اور ان کی ٹرانسپورٹیشن بھی جاری ہے، سمندری جہاز کے ذریعے یہ کراچی لائی جاتی ہیں اور پھر وہاں سے بڑے بڑے ٹرالروں پر لاد کر بذریعہ سڑک لاہور پہنچائی جاتی ہیں براستہ سڑک لانے کی بجائے انہیں ٹریک پر چلا کر بھی لایا جاسکتا تھا جو نسبتاً زیادہ محفوظ سفر ہوتا ہے اور اخراجات بھی کم اٹھتے، اب عدالتی حکم کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ منصوبے کو شہباز سپیڈ سے آگے بڑھایا جائے اگرچہ اس راستے میں اب بھی بہت ہی مشکلات حائل ہیں جن لوگوں کو انہیں اڈیالہ جیل بھیجنے کی جلدی ہے وہ بھی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکے ہیں اور نہ جانے ابھی کتنے دوسرے پہلوان اکھاڑے میں اترنے والے ہیں لیکن اگر اگلے چند ماہ میں یہ منصوبہ پروگرام کے مطابق مکمل ہوگیا اور اورنج ٹرین رواں ہوگئی تو یہ شہر ایک ایسے ماس ٹرانزٹ سٹم سے آشنا ہوگا جس کا کوئی تصور اس سے پہلے لاہور کیا پورے پاکستان میں کہیں بھی موجود نہیں، یہ پائینر پراجیکٹ ترقی کے کئی نئے در بھی کھول دے گا جن کے بارے میں اب تک کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا، بھیڑ بکریوں کی طرح لدی پھندی بسوں کا سفر جلد ہی قصۂ پارینہ بن جائیگا، بس یہی پریشانی ہے جس نے بعض مخالفین کی نیندیں اڑا رکھی ہیں کہ یہ منصوبہ بہت سی نا تمام خواہشات کو بھی خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔