منتخب کردہ کالم

بھارت چین چپقلش میں مزید اضافہ……کلدیپ نئیر

بھارت چین چپقلش میں مزید اضافہ……کلدیپ نئیر

یہ ایک مانوس مشق ہے۔ چین اروناچل پردیش پر بھارت کے قبضے کے سخت خلاف ہے مگر دوسری طرف وہ اپنے شمال مشرقی علاقے میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو مسلسل نظرانداز کر رہا ہے۔ چینی حکومت کو بھارتی وزیر دفاع نرملاسیتا ر من کے دورہ اروناچل پردیش پر سخت اعتراض ہے لیکن اس سے قبل جب دلائی لامہ نے اس علاقے کا دورہ کیا تھا تو چین کی طرف سے اس سے بھی کہیں زیادہ باآواز بلند شور مچایا گیا تھا۔ چین اور بھارت میں اس بات پر کبھی اتفاق نہیں ہوا کہ اروناچل پردیش میں اصل سرحد کہاں پر شروع ہوتی ہے۔

1962ء میں بھارت نے اپنا علاقہ چین سے واپس لینے کی کوشش کی تو چین نے بھارت پر حملہ کر دیا۔ البتہ اس مرتبہ بھارت نے ڈوکلام کے مقام پر اپنی فوجیں کھڑی کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، جہاں چین کو اپنی فوج موجودہ بارڈر سے ہٹا لینا پڑی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ستمبر میں ’’برکس‘‘ کے اجلاس کے لیے کشیدگی کم کرنے کا مظاہرہ کیا تھا۔ مودی کے دورے کا مثبت پہلو یہ تھا کہ دونوں ملک دہشتگردوں کے خلاف جنگ پر متفق ہو گئے۔ لیکن وہاں بھی چین نے اپنے موقف کی وضاحت کرنا ضروری خیال کیا۔ اقوام متحدہ کی وضاحت کرنا ضروری خیال کیا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اظہر مسعود پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر چین نے ویٹو کر دیا ۔

چین اور پاکستان کی دوستی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو بھارت کی تشویش کا موجب ہے۔ اس بات کو شاید زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب چین نے اروناچل پردیش سے چین کے دورہ پر آنے والوں کے پاسپورٹ پر ویزے کی مہر لگانے کے بجائے الگ کاغذ پر ویزا سٹیپل کرنا شروع کر دیا تھا جس سے یہ ہویدا ہوتا ہے کہ اروناچل پردیش بھارت کا حصہ ہے۔ اروناچل پردیش اور چین کے درمیان ایک چھوٹا سا قطعہ ارضی ہے جس کی چین میں شمولیت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ نئی دہلی حکومت نے خاموشی سے اپنی سبکی برداشت کر لی۔
Advertisement

ماضی میں چین ارونا چل پردیش کو نقشے میں اپنا علاقہ ظاہر نہیں کرتا تھا بلکہ اسے بھارتی علاقہ تسلیم کرتا تھا۔ تبت کا علاقہ چین کے لیے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی کہ بھارت کشمیر کو دیتا ہے جو آزادی کے بعد سے متنازعہ بن چکا ہے۔ ان دونوں میں البتہ ایک فرق ضرور ہے۔

دلائی لامہ چین کے اندر رہتے ہوئے تبت کے لیے خودمختاری کو قبول کر سکتے ہیں جب کہ کشمیر آج مکمل آزادی مانگ رہا ہے۔ ممکن ہے کبھی نہ کبھی کشمیری بھی وہ حیثیت قبول کرنے پر تیار ہو جائیں جو دلائی لامہ تبت کے لیے طلب کر رہے ہیں لیکن صورت حال بہت گمبھیر ہے کیونکہ اگر کسی بڑی تبدیلی کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے میں بڑی تباہی بھی ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ میں نے اس پہاڑی درے ’’بومڈیلا پاس‘‘ کا دورہ کیا ہے جہاں سے دلائی لامہ بھارت میں پناہ حاصل کرنے کے لیے داخل ہوئے کیونکہ ان کے علاقے ’’تبت‘‘ پر چین نے قبضہ کر لیا جس سے تبت کی ثقافت بھی تباہ ہو گئی۔

چین نے وہاں کمیونزم نافذ کر دیا اور دلائی لامہ اور ان کی مونیسٹری کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی۔ دلائی لامہ کے دورہ اروناچل پردیش سے اس زمانے کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں جب ابھی چین نے تبت پر قبضہ نہیں کیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا کیونکہ ان کے چینی وزیراعظم چواین لائی کے ساتھ ذاتی مراسم تھے یہ الگ کہانی ہے کہ انھوں نے اس دوستی کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے بھارت پرحملہ کر دیا اور ہزاروں کلو میٹر پر محیط اراضی پر قبضہ کر لیا جسے خالی کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔

تبت کی کہانی بھی دھوکا دہی کی کہانی ہے مگر اس کا انداز مختلف ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی زمانے میں تبت چین کی نگرانی میں دیا گیا تھا مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ نگرانی کو قبضے میں تبدیل کر لیا جاتا۔ بھارت خود تبت کو چین کی نگرانی میں دینے پر آمادہ ہوا تھا لیکن تبت چین کا حصہ نہیں تھا۔ اس مرتبہ بھی چین نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ’’نگرانی‘‘ کا مفہوم بدل دیا اور دعویٰ کیا کہ نگرانی کا مطلب اس ریاست پر سیاسی کنٹرول بھی حاصل کرنا ہے۔ ان حالات میں دلائی لامہ کا ’’لہاسہ‘‘ میں رہنا نا ممکن ہو گیا۔ لیکن اس کے آٹھ سال بعد یعنی 1962ء میں چین نے بھارت پر حملہ کر دیا۔

دلائی لامہ کے دورہ اروناچل پردیش سے تبت کے بارے میں کوئی شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوئے البتہ اس دورے سے تبت کے چین کا حصہ بن جانے کے بارے میں بحث دوبارہ شروع کرا دی ہے۔ بھارت کو انتباہ کیا گیا ہے کہ دلائی لامہ کے اروناچل پردیش کے دورے سے چین اور بھارت کے مابین معمول کے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔ لیکن بھارت نے مبینہ طور پرکافی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

چین بھارت تنازعے کی اصل جڑیں اس زمانے میں ملتی ہیں جب برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے بھارت اور چین کے درمیان سرحد بندی کی تھی۔ اس سرحد کو میکموہن بارڈر کہا جاتا ہے جسے چین نے شروع سے ہی تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس سرحد نے اروناچل پردیش کا علاقہ بھارت میں شامل کر دیا لہٰذا اس علاقے میں جو بھی ’’ایکٹیویٹی‘‘ ہوئی ہے چین اسے اپنے خلاف تصور کرتا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے چینی احتجاج کے باوجود متنازعہ علاقے کا دورہ کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی دہلی حکومت اس علاقے میں کسی قسم کی جارحیت برداشت کرنے پر تیار ہے۔

جس زمانے میں بھارتی فوج کی اروناچل پردیش کے محاذ پر عبرت ناک شکست ہوئی تھی اس زمانے میں بھارتی فوج کے پاس پہاڑی علاقوں میںچلنے پھرنے کے جوتے تک نہیں تھے مگر اب بھارتی فوج مسلح ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چین بھارت کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا تاکہ اس کا صبروتحمل ختم ہو جائے۔ لیکن چونکہ جنگ اب خارج ازامکان ہو چکی ہے لہٰذا چین کے پاس یہی ایک حربہ رہ گیا ہے کہ بھارت کو مشتعل کر دے۔ لیکن یہ بہت مشکل کام ہے کہ اشتعال انگیزی سے اس انداز سے نمٹا جائے کہ جنگ کا احتمال نہ رہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک زمانے میں بھارت اور چین میں ’’ہندی چینی بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ بہت مقبول تھا۔ اور اب بھی چین کی طرف سے کوشش ہوتی ہے کہ پھر اس قسم کی کیفیت کو طاری کیا جا سکے لیککن بھارت اب چین پر اعتماد نہیں کرتا۔ خاص طور پر اس صورت میں جب اسے خطرہ ہو کہ چین بھارت کا گھیرائو کرنے کی کوشش کر رہا ہے واضح رہے چین نے نیپال کو ایک بہت بڑا قرضہ بھی دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی چین سری لنکا میں ایک بہت بڑی بندر گاہ بھی تعمیر کر رہا ہے۔

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ چین بنگلہ دیش کے لیے بھی ترقیاتی کام کر رہا ہے۔ لہٰذا سب کو یہ باور کر لینا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ خوامخواہ کی دھینگا مستی نہیں کی جا سکتی۔ جنگ کے علاوہ بھی بھارت کے پاس اور بہت سے مواقع بھی ہیں۔ تائیوان بھارت کے لیے ’’ترپ کا پتا‘‘ ہے۔ اس سے ’’وہ چین‘‘ کے مفروضے پر دوبارہ بحث شروع کرائی جا سکتی ہے۔

علاوہ ازیں دہشتگردی کا سوال تو جس وقت بھی چاہو کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چینی حکمرانوں کے ساتھ اس سوال پر اتفاق کر لیا ہے کہ دہشتگردی دونوں کے لیے مشترکہ تشویش ہے۔ چین میں مقیم مسلمانوں کا ایک پورشن اپنی حیثیت کو منوانے پر تل گیا ہے لیکن چینی لیڈر اس شورش کو فی الوقت نظرانداز کر رہے ہیں لیکن انھیں یہ یقیناً علم ہے کہ چینی مسلمان جو کر رہے ہیں اس میں انھیں دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے تاہم چین کو غیر مسلم ممالک کی مدد حاصل ہو سکتی ہے