منتخب کردہ کالم

حشر گلفشانی کا بہرہ پن…وقارخان

حشر گلفشانی کا بہرہ پن…وقارخان
سلمیٰ:(حشر گلفشانی کی بہو) جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ طاقت کا سماج ہے ابا جی …
حشر گلفشانی: جہالت کا راج ہے ؟ صحیح کہا بہو ، یہاں جہالت کا راج ہے ۔
سلمیٰ: کان میں اپنا آلہ سماعت لگائیے ابا جی !میں کہہ رہی ہوں کہ یہ معاشرہ ہے کہ جنگل ہے ؟
حشر گلفشانی : ہاں منگل ہے ، آج منگل ہے بیٹا ۔
سلمیٰ:میں اس جنگل میں دنگل در دنگل کی بات کر رہی ہوں ابا جی …
حشر گلفشانی: جنگل میں منگل ؟ یہ بھی ٹھیک کہا ۔جنگل ہوتا ہی منگل بنانے کے لیے ہے بیٹا ۔ اس سے جنگل کی رونق بڑھتی ہے ۔
سلمیٰ: عجیب احتجاجی کلچر ہے ہمارا ۔
حشر گلفشانی: درست کہا ، یہی کلچر ہے ہمارا۔
سلمیٰ: (اونچی آواز میں) تجاوزات آپریشن کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے تین گھنٹے سے سڑک بلاک کر رکھی ہے ابا جی! سکولوں کی بسیں وہاں پھنسی ہوئی ہیں ۔میری گڑیا اور چاندو بس میں خوفزدہ بیٹھے ہیں اور آپ کو کیا باتیں سوجھ رہی ہیں؟ …اُف ، مندا حال ہے ۔
حشر گلفشانی: ہائیں ! لمبا مال ہے ؟ پھر کسی نے لمبا مال بنایا ہے کیا ؟ بھئی یہ لوگ باز نہیں آئیں گے ۔
سلمیٰ: جانے ان لوگوں کو رستے بند کر کے کیا ملتا ہے، کتنی تکلیف دہ صورتحال ہے ؟
حشر گلفشانی: یرغمال ہے ؟ بالکل صحیح کہا ، سارا شہر ہی یرغمال ہے بلکہ پورا ملک ہی …
سلمیٰ: (جذباتی ہوکر) یرغمال ہیں تو انتظامیہ ہمیں چھڑواتی کیوں نہیں؟ یہ چند سو لوگوں سے سڑک خالی نہیں کرا سکتے ؟ مسافر ، بچے ،عورتیں، بوڑھے اور مریض بے بسی کے عالم میں پھنسے ہوئے ہیں اور آپ انتظامیہ کی حیلہ سازیاں دیکھیے ۔
حشر گلفشانی: ڈرامہ بازیاں ؟ ارے بیٹا کس کس کی ڈرامہ بازیاں گنوائو کی تم؟
سلمیٰ:(بے بسی سے روتے ہوئے) روڈ بندہے ابا جی ۔ میں کہہ رہی ہوں کہ روڈ بند ہے ۔
حشر گلفشانی: بہت گند ہے ، صحیح کہا بیٹا لیکن رونے سے گند صاف نہیں ہوتا۔
سلمیٰ: آپ بات کو کہاں لے جاتے ہیں ابا جی ، میں شہر کی انتظامیہ کو کوس رہی ہوں جو تین گھنٹوں سے احتجاجیوں کی منت کر رہی ہے ۔ راستہ کھلوانے کی یہ کیا تدبیر ہے ؟
حشر گلفشانی: ہائیں ؟ـ حیا دامن گیر ہے ؟ ارے نہیں بیٹا ! یہاں کسی کو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ۔ حیا کیوں دامن گیر ہونے لگی بھلا ہم سے؟ اسے تو کب کا دیس نکالا دے دیا ہم نے۔
سلمیٰ: یا اللہ ! اس ریاست پر برا وقت ہے ۔
حشر گلفشانی: سیاست پر برا وقت ہے۔ بالکل صحیح کہا ۔ بہت برا وقت ہے ۔
سلمیٰ: (غصے سے ) میں پہلے ہی پریشان ہوں ابا جی اور آپ سیاست کو لے آئے بیچ میں ؟ اگر مجھ سے گستاخی ہو …
حشر گلفشانی: معافی ؟ ناں بیٹا ناں ۔ اب کسی کو معافی نہیں ملے گی۔ احتساب کا شکنجہ کسا جا چکا ۔ پھندے فٹ ہو چکے ۔
سلمیٰ: دل پر پتھر رکھاہوا ہے ابا جی ! بچے سڑک پربے یارومددگار ہیں …
حشر گلفشانی: بے کار ہیں ، سب بیکار ہیں ۔ بالکل ٹھیک کہا تم نے ۔
سلمیٰ: توبہ ہے ۔ میں نے کہا ہے کہ بچے سڑک پر بے یارومددگار ہوں تو صورتحال برداشت کرنا کڑا کام ہے ۔
حشر گلفشانی : گلا سڑا نظام ہے ؟ بالکل گلا سڑا نظام ہے ۔ اس سے نجات کے لیے ہی تو کاوشیں ہو رہی ہیں۔ تم دیکھ لینا ، بہت جلد نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔
سلمیٰ: (ہنسی ضبط کرتے ہوئے ) ابا جی ! آپ کی باتیں بھی ایسی ہیں …جیسے ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی۔
حشر گلفشانی: لوٹ کھسوٹ نے اندھیر مچائی ؟ نہیں بیٹا نہیں ۔ اندھیر مذکر ہے اور اصل جملہ یوں ہوں گا کہ لوٹ کھسوٹ نے اندھیر مچایا۔ تمہاری گرامر تو بہت ہی کمزور ہے ۔
سلمیٰ: لوٹ کھسوٹ پر ہی کیا موقوف ابا جی ! یہاں تو سب نے اندھیر مچایا ہے ۔
حشر گلفشانی: کون شرمایا ہے ؟ یہاں کوئی نہیں شرماتا بیٹا ۔تمہیں وہم ہوا ہے ۔ وہ کیا کہا شاعر نے کہ …ہمارا آئندہ کوئی نہیں /لیکن شرمندہ کوئی نہیں۔
سلمیٰ:(ہاتھ جوڑ کر ) کان میں آلہ سماعت لگائیے ابا جی ! میں پہلے ہی ٹینس ہوں ، ایک تو میرے دونوں معصوم بچے سڑک پر محصور ہیں …
حشر گلفشانی: مجبور ہیں ، بالکل مجبور ہیں بیٹا ۔ ہم سب مجبور ہیں۔
سلمیٰ: (ماتھے پرہاتھ مار کر) میں بک رہی ہوں کہ مجھے اپنے بچوں کا بے چینی سے انتظار ہے ۔
حشر گلفشانی: انتشار ہے ـ،بالکل انتشار ہے بیٹا ۔مجھے معلوم ہے ۔
سلمیٰ: (چیختے ہوئے) انتظار ،انتظار ۔
حشر گلفشانی: اچھا خلفشار… ایک ہی بات ہے بیٹا ۔ انتشار اور خلفشار وہاں ہوتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔
سلمیٰ: (کان پر ہاتھ رکھ کر حشر گلفشانی کی نقل اتارتے ہوئے ) ہائیں ؟ جن کی نانی نہ ہو ؟ صحیح کہا ابا جی ۔ انتظار ،انتشار اور خلفشار ان کے ہاں ہوتے ہیں ، جن کی نانی نہ ہو، جن کا کوئی والی وارث نہ ہو۔
حشر گلفشانی: (ہنستے ہوئے) میری نقل نہ اتارو بیٹا ! جن کی زنانی نہ ہو ، وہ تو بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں ۔
انتظار علی 🙁 گلفشانی کا بیٹا اور سلمیٰ کا خاوند، گھر میں داخل ہوتے ہوئے ) پریشان مت ہوں خاتون و حضرت ! سڑک کھل گئی ہے ۔ بچے پہنچنے والے ہیں۔
سلمیٰ: (خوشی سے آنسو ضبط کرتے ہوئے ) یا اللہ ! تیرا شکر ہے ۔
انتظار علی: انتظامیہ نے احتجاجیوں کے تمام مطالبات مان لیے ہیں۔ اب فٹ پاتھوں اور سرکاری جگہوں پر تجاوزات برقرار رہیں گی اور سڑکیں آزاد۔
سلمیٰ: ویسے ابا جی !اپنے ہی ہم وطنوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دینے والی ہم بھی کیسی قوم ہیں؟
حشر گلفشانی: ہجوم ہیں، سو فیصد ہم ہجوم ہیں بیٹا۔ درست کہا تم نے ۔
انتظار علی: اور مبارک ہو ابا جی ! اب ہمیں فخر سے سر اٹھا لینے چاہئیں۔
حشر گلفشانی:شرم سے سر جھکا لینے چاہئیں ، کیوں بھئی (کان میں آلہ سماعت لگاتے ہوئے) سڑک تو کھلوا دی گئی ہے ۔
انتظار علی:جھکا نہیں جناب ! سر اٹھا لینے چاہئیں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری بجلی کی پیداوار ملکی ضروریات سے بڑھ گئی ہے ۔
حشر گلفشانی:(آلہ سماعت اتارتے ہوئے) یہ کہاں سے سنا تم نے ؟
انتظار علی:اخبار میں پڑھا ہے میں نے ۔
حشر گلفشانی: اچھا جھوٹ گھڑا ہے تم نے ۔ شاوش اے بھئی ۔
انتظار علی :(سلمیٰ سے ) ویسے ابا جی تھوڑے کھسک نہیں گئے ؟
سلمیٰ: شٹ اپ ۔
حشر گلفشانی: ( صوفے سے اچھل کر) سیٹ اپ ؟ آ گیا نگران سیٹ اپ ؟ ذرا مجھے تفصیل سے بتائو بیٹے ۔ بڑا انتظارتھا اس کا ۔
( بھوک ، پیاس سے نڈھال اور خوفزدہ چہرے لیے دونوں بچے گھر میں داخل ہوتے ہیں اور چیخ کر ماں سے لپٹ جاتے ہیں۔ بچوں کو سینے سے چمٹاکر روتے روتے سلمیٰ کی ہچکی بندھ جاتی ہے ۔ حشر گلفشانی اور انتظار علی بھی آنسوئوں پر قابونہیں رکھ سکتے )۔