منتخب کردہ کالم

سانحہ ماڈل ٹاؤن ٹربیونل جاں بحق افراد کی صحیح تعداد تک کا پتہ نہ چلاسکا

سانحہ ماڈل ٹاؤن ٹربیونل جاں بحق افراد کی صحیح تعداد تک کا پتہ نہ چلاسکا
تجزیہ-:سعید دھری
لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ جاری کی جاچکی ہے ۔جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل ٹربیونل کی اس رپورٹ کے مطابق ماڈل ٹاؤن آپریشن کی منصوبہ بندی وزیرقانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں 16جون 2014ء کوہونے والے اجلاس کے دوران کی گئی ۔رپورٹ کے مطابق پولیس واپس بلانے کے حکم سے متعلق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی طرف سے ٹربیونل کو دیا گیابیان حلفی حقائق پر مبنی نہیں ہے ۔فاضل ٹربیونل نے آبزرویشن دی ہے کہ رپورٹ میں جو حالات وواقعات بیان کئے گئے ہیں ان کی روشنی میں سانحہ منہاج القرآن کے ذمہ داروں کا آسانی کے ساتھ تعین کیا جاسکتا ہے لیکن ٹربیونل نے خود کسی ذمہ دار کا تعین نہیں کیا ہے ۔اس رپورٹ کی کیا قانونی حیثیت ہے ؟ اس رپورٹ کے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے ٹرائل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟کیا رپورٹ میں فاضل ٹربیونل کی طرف سے دی گئی آبزرویشن کی بنیاد پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نااہل ہوسکتے ہیں ؟لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے 5دسمبر کے اپنے فیصلے میں تین حکم جاری کئے تھے ،پہلا یہ کہ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ کی نقل فوری طور پر متاثرین سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سپرد کی جائے ،دوسرا یہ کہ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ 30دن کے اندر شائع کی جائے اور تیسرا یہ کہ انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ٹرائل پر اثر انداز نہیں ہوگی ۔لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے اس فیصلے میں دوسرے سوال کا جواب موجود ہے کہ رپورٹ کا ماڈل ٹاؤن کیس کے ٹرائل پر کوئی اثر نہیں ہوگااور نہ ہی اس رپورٹ کو بطور شہادت عدالت میں زیر غور لایا جائے گا۔جسٹس علی باقر نجفی رپورٹ میں وزیراعلیٰ کے بیان حلفی کے حوالے سے کہا ہے کہ رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان حلفی میں پولیس واپس بلانے سے متعلق وزیراعلیٰ کے حکم کے بارے میں ایک لفظ بھی بیان نہیں کیا ۔فاضل ٹربیونل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیراعلیٰ کے مطابق وہ لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے نو بجے گورنر ہاؤس پہنچے تھے ،ساڑھے نو بجے انہیں ٹی وی پر ماڈل ٹاؤن کی صورتحال سے آگاہی ہوئی اور انہوں نے اپنے سیکرٹری توقیر شاہ کو ٹیلی فون پر حکم دیا کہ پولیس فوری طو ر پرواپس بلا لی جائے ۔خود ٹربیونل نے اس بات کا رپورٹ میں ذکر کیا ہے کہ توقیر شاہ نے اپنے بیان حلفی میں نشاندہی کی ہے کہ انہو ں نے وزیرقانون اور ہوم سیکرٹری کو پولیس واپس بلانے کے حکم سے آگاہ کردیا تھا لیکن موقع پر موجود افسروں نے انہیں بتایا کہ صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے ۔فاضل ٹربیونل نے توقیر شاہ کے بیان حلفی پر انحصار کرنے کی بجائے راناثناء اللہ کے بیان حلفی کی بنیاد پر وزیراعلیٰ کا بیان حلفی مسترد کیا حالانکہ وزیراعلیٰ نے اپنے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کو وہاں سے پولیس ہٹانے کا حکم دیاتھا ،رانا ثناء اللہ کو نہیں ۔ایسی صورت میں رانا ثنا ء اللہ اپنے بیان حلفی میں وزیراعلیٰ کے حکم کا ذکر کیونکر کرتے ؟ جسٹس علی باقر نجفی کا انکوائری ٹربیونل پنجاب ٹربیونلز آف انکوائری آرڈیننس مجریہ1969ء کے تحت تشکیل دیا گیا تھا ،اس آرڈیننس کے تحت ٹرمز آف ریفرنس کا تعین کرنا حکومت کا اختیار ہے جبکہ فاضل ٹربیونل نے اپنی رپورٹ میں حکومت کی طرف سے انکوائری کے لئے محدود اختیارات دینے کا ذکر بھی کیا ہے ۔اس رپورٹ کی قانونی حیثیت کے حوالے سے عرض ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو قتل کیس میں قرار دیا جاچکا ہے کہ جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اسی عدالتی نظیر کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے متعدد مقدمات میں جوڈیشل انکوائری کو گواہی کے طور پر قبول نہ کرنے کی بابت آبزرویشنز آچکی ہیں۔قانون کے تحت جوڈیشل انکوائری کا مقصد غیر جانبداری کے ساتھ انتظامیہ کو مدد اور راہنمائی فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ انکوائری کے نتائج کی روشنی میں انتظامیہ اپنے لئے درست راستے کا تعین کرسکے۔جوڈیشل کمیشن کوئی عدالت ہے اور نہ ہی وہ کوئی حکم جاری کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ کی بنیاد پر کیا کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی۔اسی طرح کسی شخص کے خلاف رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عمل درآمد بھی ضروری نہیں ہے ،اس حوالے سے بھی عدالتی نظائر موجود ہیں جیسا کہ سانحہ گوجرہ کے حوالے سے مسٹر جسٹس اقبال حمید الرحمن کی انکوائری رپورٹ میں اعلی پولیس افسر طاہر رضا کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی اور یہ رپورٹ ان کی کسی اعلی ٰ عہدہ پر تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ تھی تاہم اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعدطاہر رضا کو سی سی پی او لاہور مقرر کردیا گیا تھا۔جوڈیشل انکوائری رپورٹ دراصل ایک انتظامی اقدام ہے جسے عدالتی کارروائی اور عدالتی حکم تصور کیا جانا درست نہیں ۔حکومت جوڈیشل کمشن کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے سکتی ہے جیسا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے کیا گیا تھا۔جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن خان کی سربراہی میں قائم جائزہ کمیٹی نے جسٹس علی باقر نجفی رپورٹ کے حوالے سے بہت سے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔جیسا کہ جائزہ کمیٹی نے ٹربیونل کی طرف سے آئی بی کی رپورٹ کو نظر انداز کرنے کی نشاندہی کی ہے ۔آئی بی کی رپورٹ کے مطابق طاہر القادری کے گھر سے فائرنگ کے نتیجہ میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔جائزہ کمیٹی نے یہ بھی نشاندہی کی تھی کہ پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کے پہلو کو بھی رپورٹ میں نظر انداز کیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رکاوٹیں ہٹانے کا اختیار وزیراعلیٰ کو نہیں بلکہ وزیر بلدیات کے پاس ہے ۔اس بابت توقیر شاہ کا بیان حلفی بھی موجود ہے ،اس وقت وزیربلدیات کا قلمدان رانا ثناء اللہ کے پاس تھا تو پھر وزیراعلیٰ کو اس معاملے میں کیسے ملوث کیا جاسکتا ہے ؟فاضل ٹربیونل نے اس پہلو کو بھی اپنی انکوائری رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا ۔انکوائری رپورٹ پر انحصار نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فاضل ٹربیونل سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والے افراد کی صحیح تعداد تک کا پتہ نہیں چلا سکے ،انہوں نے اپنی رپورٹ میں 14افراد کی ہلاکت کا ذکر کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں 10افراد مارے گئے تھے ۔ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک نے اس ٹربیونل کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا ،جب دوسری طرف سے شہادتیں ہی سامنے نہیں نہیں آئی تھیں تو پھر رپورٹ کو جامع تصور کرلیا جائے ۔ادارہ منہاج القرآن نے خود ٹربیونل کی رپورٹ سے بڑھ کر اقدام کیا اور لاہور ہائی کورٹ سے حکم حاصل کرکے اس سانحہ کی ایف آئی آر درج کروائی جس میں میاں محمد نوازشریف ، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز،رانا ثناء اللہ ،خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چودھری نثار کوبھی نامزد کیا گیااوران پرسانحہ ماڈل ٹاؤن کی سازش تیار کرنے کا الزام عائد کیا گیاجبکہ جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کے مطابق ماڈل ٹاؤن آپریشن کی منصوبہ بندی وزیرقانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں 16جون 2014ء کوہونے والے اجلاس کے دوران کی گئی ۔رپورٹ میں حمزہ شہباز،خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چودھری نثار کا ذکر ہے اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی سازش تیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔قانون کے تحت اس رپورٹ کو عدالتی حکم نہیں مانا جا سکتا اور نہ ہی ٹربیونل کی کارروائی کی بنیاد پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے ۔انکوائری ٹربیونل کے سامنے وزیراعلیٰ کے بیان پر کوئی جرح نہیں ہوئی اور نہ ہی توقیر شاہ نے وزیراعلیٰ کے بیان کی تردید کی ہے بلکہ توقیر شاہ کا بیان حلفی وزیراعلیٰ کے بیان حلفی کی تائید کرتا ہے ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر وزیراعلیٰ کو آئین کے آرٹیکل 62(1)ایف کے تحت عدالت کے کٹہرے میں نہیں لایاجاسکتا ۔اس آرٹیکل کے تحت جو شخص صادق اور امین نہ ہو وہ عوامی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ۔