منتخب کردہ کالم

سرٹیفکیٹ؟ …..رئوف طاہر

سرٹیفکیٹ؟ …..رئوف طاہر
کیا معاملہ واقعی ایسا سادہ اور اتنا آسان ہے‘ جتنا رانا ثناء اللہ نے سمجھ لیا ہے۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی ہدایت پر صوبائی وزیر اوقاف و مذہبی امور زعیم قادری دربار عالیہ سیال شریف پہنچے اور پیر حمید الدین سیالوی کی خدمت میں حاضری دی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پانے والے 27 نومبر کے معاہدہ فیض آباد (جس پر ”بوساطت‘‘ کے طور پر میجر جنرل فیض حمید کے دستخط بھی ہیں) کے بعد بھی پیر صاحب وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے استعفے کے مطالبے پر قائم ہیں اور ”بصورتِ دیگر‘‘ جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ زعیم قادری کی وضاحتوں (زیادہ صحیح الفاظ میں منت ترلوں) کے بعد پیر صاحب کے مئوقف میں اتنی سی نرمی آئی کہ رانا ثناء اللہ خود دربارِ عالیہ حاضر ہوں۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے پیر صاحب کے روبرو کلمہ پڑھیں (تجدید ایمان) اور اعلان کریں کہ وہ قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے ٹی وی اینکرز کے سوال پر رانا صاحب کا کہنا تھاکہ وہ ایک کلمہ گو مسلمان ہیںاور اپنے عقیدے کی رُو سے بھی (اور آئین پاکستان کے مطابق بھی) قادیانیوں کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو پیر صاحب سمیت پوری اُمتِ مسلمہ کا ہے۔ پیر صاحب اپنے سامنے (اور ٹی وی کیمروں کے روبرو) بھی اس کا اعادہ چاہتے ہیں تو وہ اس پر بھی تیار ہیں۔
اس موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے ہم خود اپنے بارے میں ضروری وضاحت کر دیں۔ ہم نے 1953ء میں (سابق ریاست بہاولپور کے شہر) ہارون آباد میں بریلوی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ شہر کی جامع مسجد کا شمار ریاست کی چند بڑی مساجد میں ہوتا تھا۔ ہمارے بزرگ امرتسر سے ہجرت کر کے یہاں پناہ گزین ہوئے تھے۔ ہمارے ماموں جان مسجد کی انتظامی کمیٹی کے رکن تھے۔ کہا جاتا ہے‘ ہمارا نام علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری صاحب نے رکھا تھا۔ 1970ء میں مولانا قمر الدین سیالوی کی زیرقیادت جمعیت علماء پاکستان سیاسی و انتخابی جماعت کے طور پر وجود میں آئی تو مولانا ازہری کا شمار اس کے قد آور لیڈروں میں ہونے لگا۔ وہ کراچی سے رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے) ہمارے ہاں گیارہویں شریف کے علاوہ جمعرات کے ختم کا بھی اہتمام ہوتا۔ 12 ربیع الاوّل کو گھر کی منڈیروں پر مٹی کے دیپ بھی جلائے جاتے (تب شہر میں بجلی نہیں آئی تھی) 12؍ ربیع الاوّل کا جشن منانے والوں میں بھی ہم پیش پیش ہوتے۔ محرم میں ہمارے ہاں بھی سوگ کا ماحول ہوتا۔ والدہ صاحبہ دس محرم کو ”کُجیوں ٹھوٹھیوں‘‘ کا اہتمام کرتیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے‘ 22 رجب کو امام جعفر صادق کے ”کونڈے‘‘ بھی ہمارے ہاں سالانہ معمول تھا۔ سال میں ایک دو بار چشتیاں شریف میں پیر صاحب مہاروی کے دربار پر بھی حاضری ہوتی۔ لاہور آتے تو داتادربار پر سلام کے بغیر واپسی کا تصور نہ ہوتا۔ نویں‘ دسویں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعے سید مودودیؒ کے مطالعے کا آغاز ہوا تو عقائد میں پہلی سی شدت نہ رہی لیکن ”خوش عقیدگی‘‘ میں کوئی فرق نہ آیا۔ (اس حوالے سے آپ ہمیں پروفیسر غفور احمد صاحب مرحوم کے ”پیروکاروں‘‘ میں شمار کر سکتے ہیں) موجودہ نظامِ خانقاہی کے متعلق علامہ کے اشعار کا اپنا لطف تھا ؎
یہ معاملے ہیں نازک‘ جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا‘ یہ طریق ِخانقاہی
اور ”اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری‘‘ والا شعر بھی …
اپنے متعلق یہ ”وضاحت‘‘ قدرے طویل ہو گئی‘ مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ ”کعبے سے ”اس بُت‘‘ کو بھی نسبت ہے دُور کی‘‘…
فیض آباد کا 21 روزہ دھرنا بالآخر اختتام کو پہنچا‘ لیکن ”مسئلہ‘‘ ختم نہیں ہوا۔ لاہور میں پیر آصف اشرف جلالی کا دھرنا جاری ہے۔ وہ علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے رفقاء پر 21 کروڑ روپے کے عوض شہداء فیض آباد کے خون کا سودا کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کے بقول 27 نومبر کا معاہدہ نہ ہوتا تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا تھا۔ (وہ ایک روز قبل اس دھرنے کے پس پردہ بھارت کے ہاتھ کا ذکر کر رہے تھے) اس معاہدے پر خود وزیر موصوف بھی خوش نہیں‘ وہ اسے ایک ناپسندیدہ اقدام قرار دیتے ہیں (یوں سمجھیں جیسے حالتِ اضطرار میں‘ جان بچانے کے لیے حرام بھی شرعاًحلال ہو جاتا ہے) لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے نے ”ریاست‘‘ کی بے بسی پوری طرح عیاں کر دی ۔ اس کارہا سہا بھرم بھی جاتا رہا۔
آرمی چیف بروئے کار آئے‘ بہت اچھا ہوا۔ لیکن ریاست اور اس کی رٹ کو چیلنج کرنے والے یکساں کیسے ہو گئے؟
اقبالؔ نے کہا تھا ع
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
یہاں ”کلیمی‘‘ سے مراد ریاست کی رٹ بھی ہو سکتی ہے جو ”عصا‘‘ کے بغیر قائم نہیں رہتی‘ اور پھر یہ بھی کہ بہت سی باتیں پس پردہ ہوتی ہیں‘ جناب جنرل نے تشدد سے گریز کا مخلصانہ مشورہ دیا تھا تو کیا ضروری تھا کہ اسے منظر عام پر بھی لایا جاتا؟ ریاستی ادارے بہت سے کام پردے کے پیچھے بھی کرتے ہیں‘ خفیہ اداروں کا تو سارا کام ہی خفیہ ہوتا ہے۔ جنرل (ر) امجد شعیب گزشتہ شب ایک ٹاک شو میں کہہ رہے تھے کہ فیض آباد دھرنے کے خاتمے میں آئی ایس آئی کا کردار آرمی چیف کی ہدایت پر نہیں‘ بلکہ خود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی خواہش پر تھا‘ شعلوں کو بجھانے کے لیے جس نے جو کردار ادا کیا‘ قابل تحسین ہے لیکن معاہدے میں اس کا باقاعدہ ذکر اور ”بوساطت‘‘ کے الفاظ کے ساتھ دستخط کے لیے خود علامہ رضوی نے بھی اصرار کیا ہو تو انہیں اس کے ”اثرات‘‘ کے حوالے سے احساس دلایا جا سکتا تھا۔
”معاہدے‘‘ میں کمزور فریق کے لیے بھی کسی حد تک ”فیس سیونگ‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے‘ فیض آباد میں ریاست بے بس ہو گئی تھی تب بھی اس کے لیے فیس سیونگ کا کچھ تو اہتمام کیا جاتا۔ معاف کیجئے‘ یہ ایگریمنٹ نہیں‘ ریاست کا سرنڈر تھا جس میں اس کی عزت و توقیر کے لیے کوئی ایک شق‘ کوئی ایک لفظ تو ہوتا۔
ڈی جی رینجرز جنرل اظہر حیات کے ہاتھوں ”لفافوں‘‘ کی تقسیم کی تصویر بھی تجزیہ کاروں کے لیے دلچسپی کا باعث بن گئی۔ عسکری ذرائع کے مطابق دھرنے کے شرکاء میں یہ بارہ‘ تیرہ افراد تھے جنہوں نے جنرل صاحب کو بتایا کہ ان کے پاس تو واپسی کے لیے کرایہ بھی نہیں‘ جس پر انہوں نے فی کس ایک ہزار روپے (اپنی جیب سے) انہیں دے دیئے‘ اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا۔
تشویشناک صورتِ حال میں بعض ”دلچسپی‘‘ کے مناظر بھی ابھرے۔ حکومت پنجاب کے سرکاری ترجمان جناب ملک محمد احمد ایک ٹاک شو میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو اس تمام تر المیے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے‘ ان کے استعفے کی حمایت کر رہے تھے اور اگلے روز جناب ثناء اللہ اسے سرکاری ترجمان کی ”ذاتی رائے‘‘ قرار دے رہے تھے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ انہیں دربار عالیہ سیال شریف جا کر کلمہ پڑھنے اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں کوئی عار نہیں‘ لیکن معاف کیجئے‘ معاملہ ایسا سادہ نہیں‘ یہ اپنی مسلمانی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی بات ہے۔
اس سارے کھیل میں ہمیں وفاقی وزیر داخلہ جناب احسن اقبال سب سے زیادہ قابل رحم نظر آئے۔ ان کا شمار پڑھے لکھے وزراء میں ہوتا ہے‘ شخصیت میں خاندانی وجاہت کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی (مرحوم) ان کے خالو تھے جبکہ والدہ آپا نثار فاطمہ 1985ء کی قومی اسمبلی کی رکن تھیں۔ وہ ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کی رکن بھی رہیں۔ اسلامی مقاصد کے لئے ان کی مردانہ وار جدوجہد کا ایک زمانہ معترف تھا۔ ایک موقع پر جنرل ضیاء الحق سے سوال کیا کہ 1973ء کے آئین کی معطلی کے بعد قادیانیوں کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ شوریٰ کی رکنیت اس یقین دہانی کے بعد قبول کی تھی کہ اس سے ملک میں نمائندہ حکومت کی طرف سفر کا آغاز ہوگا۔ وہ آزادیٔ اظہار کی ضرورت اور اہمیت پر بھی ہمیشہ زور دیتی رہیں۔ خود احسن اقبال بھی اپنے میرٹس کی بنیاد پر عزت و احترام کا خاص مقام رکھتے ہیں۔ میاں صاحب کی حکومتوں میں ترقی و منصوبہ بندی کے وزیر کے طور پر اپنا نقش جمایا لیکن حالیہ بحران کے دوران یوں محسوس ہوا جیسے اعدادوشمار میں مہارت رکھنے والے شخص کیلئے وزارت داخلہ کی ذمہ داری بہت بھاری ہو