منتخب کردہ کالم

مالاگا سے قرطبہ تک…..امجد اسلام امجد

مالاگا سے قرطبہ تک…..امجد اسلام امجد

اسپین کا پہلا سفر میں نے آج سے تقریباً ساٹھ برس قبل نسیم حجازی کی انگلی پکڑ کر ان کے ناول ’’شاہین‘‘ کے صفحات میں کیا تھا جو میں نے مسلم ماڈل ہائی اسکول کی لائبریری سے لے کر پڑھی تھی۔ ساتویں جماعت میں پڑھنے والے ایک جذباتی سے بچے کے لیے اس کے کردار، واقعات اور مقامات ایک جادونگری سے کم نہیں تھے کہ اس میں قدم قدم پر ایک ایسے انسانی گروہ کی شوکت رفتہ کے پرجوش اور ایمان افروز مظاہر تھے جس کا وہ خود حصہ تھا۔

اس وقت تک اسے نہ تو تاریخ، فکشن اور فینٹسی کی نوعیت اور حدود کا شعور تھا اور نہ ہی یہ اندازہ تھا کہ دنیا کے نقشے پر یہ علاقہ کہاں واقع ہے۔ آیندہ چند برسوں میں ان میں سے کئی سوالات کے جواب تو مل گئے مگر سچی بات ہے کہ ان انکشافات نے کئی خوشنما خوابوں کے آئینے توڑنے اور دھندلانے کے سوا کچھ نہیں کیا یعنی ان کا حال بھی کچھ کچھ ضمیر کی آواز سے ملتا جلتا تھا کہ جو بقول شخصے انسان کو گناہ سے روکتی تو نہیں صرف اس کا مزا خراب کردیتی ہے۔

جدید اسپین سے اگلا تعارف کھیلوں بالخصوص فٹ بال کی معرفت ہوا جب کہ ادبی حوالے سے نسیم حجازی کی جگہ مستنصر حسین تارڑ اور اس کے ’’اندلس میں اجنبی‘‘ نے لے لی۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ، جغرافیے اور میڈیا کے ذریعے کئی ایسے معاملات اور مقامات سے بھی واقفیت ہوئی جن کے بارے میں نسیم حجازی مرحوم عمومی اور مستنصر جزوی طور پر ناواقف، خاموش یا لاتعلق نظر آئے۔ زیادہ مسئلہ نئے مقامات کے محل وقوع اور پرانے شہروں کے عربی ناموں کی جگہ مختلف ہجوں اور آوازوں والے ناموں میں پڑا کہ قرطبہ کو Cardoba، غرناطہ کو Granada اور اشبیلہ کو سولی Siville یا سویہ پڑھنا اور بولنا کوئی آسان کام نہیں۔

اس طرح اس بار ہم مالاگا نامی جس ایئرپورٹ پر اترے، یہ نسیم حجازی کے ناول میں مالقہ (ملاقا) ہوا کرتا تھا۔ کم و بیش یہی صورت حال فشتالیہ کی بھی ہے جو اب کیٹلونیہ ہوگیا ہے اور یہ وہی صوبہ ہے جہاں سے علیحدگی کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

اس سفر میں خالد مسعود کی ایک نئی خوبی اور صلاحیت کا پتہ چلا اور وہ یہ کہ اس کی جغرافیے، اور سمتوں کے تعین کی سینس بہت عمدہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے تاریخی کرداروں کے نام اور مختلف واقعات کے سال، مہینے اور دن متعلقہ تفصیلات سمیت بہت صحت کے ساتھ یاد ہیں۔ سو اس حوالے سے اسپین کی تاریخ اور وہاں کی اسلامی حکومت کے مختلف ادوار، کرداروں اور واقعات کے زمانے کے تعین کے ضمن میں جب بھی کوئی بحث ہوئی عام طور پر اسی کی رائے صائب اور صحیح ٹھہری۔

سقوط بغداد، سقوط غرناطہ، سقوط دہلی اور سقوط ڈھاکا کا سلسلہ یوں تو بارہویں سے بیسویں صدی تک پھیلا ہوا ہے کہ چاروں ہی مختلف مسلمان حکومتوں کے زوال اور بربادی کے مظہر ہیں۔ اتنا تو مجھے یاد تھا کہ جس طرح ہندوستان میں اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی نے کابل سے آکر مغل حکومت کو مرہٹوں کے خلاف پانی پت کی تیسری لڑائی میں فتح کے ذریعے تقریباً ایک صدی کے لیے دوبارہ بحال کیا تھا اسی طرح بربر سردار یوسف بن تاشفین نے بھی مراکش سے آکر اسپین کی گرتی ہوئی مسلمان حکومت کو سنبھالا دیا تھا جو 1492ء کے سقوط غرناطہ تک قائم رہی مگر یہ واضح نہیں تھا کہ اندلس کی مختلف عیسائی ریاستوں سے مسلسل کشمکش کے دوران قرطبہ کا شہر اس سے تقریباً ڈھائی سو برس قبل یعنی 1236 میں ہی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا جب کہ دونوں شہروں کا درمیانی فاصلہ 150 کلو میٹر سے بھی کم ہے۔

اسی طرح غرناطہ کے آخری اور جلا وطن کیے جانے والے حکمران ابو عبداللہ کی فرڈینینڈ اور ازابیلا کے ہاتھوں شکست کی تفصیلات کے ساتھ ان عظیم، مضبوط، علم دوست اور مدبر حکمرانوں اور ان کی سرپرستی میں ہونے والے ان علمی، سائنسی، ادبی، تحقیقی اور تخلیقی کارناموں اور ان سے متعلق غیرمعمولی افسانوں کے بارے میں بھی بہت سی ایسی باتوں کو تصدیق اور ترتیب کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا جو مبہم روایتوں اور ناقص معلومات کا ملغوبہ بن چکی تھیں۔

اس سارے عمل کا آغاز مالاگا MALAGA نامی اس شہر کے نام سے ہوا جس کا عربی یا پرانا تلفظ ’’مالقہ‘‘ ہوا کرتا تھا اور جس کے ہوائی اڈے پر ہم نے کوپن ہیگن سے جرمنی، فرانس اور اسپین کے بالائی علاقے سے پرواز کرتے ہوئے تقریباً اڑھائی گھنٹے میں پہنچنا تھا۔ جاوید میر صاحب ڈنمارک کے قوانین کی سختی اور اپنے ڈرائیونگ پوائنٹس کی سابقہ کٹوتیوں کی وجہ سے رات کے چار بجے بھی سنسان سڑکوں پر اس قدر احتیاط سے گاڑی چلا رہے تھے کہ خوامخواہ الجھن ہورہی تھی۔

ہمارے دورے کے مقامی کوآرڈینیٹر طیب میاں جتنی خوشگوار طبیعت کے حامل ہیں اس سے بھی زیادہ انتظامی معاملات میں محتاط اور ذمے دار ہیں۔ اب چونکہ آیندہ تین دن آزاد، فارغ اور گھومنے پھرنے کے لیے تھے اور قیام ایسے علاقے میں تھا جہاں اپنی کمیونٹی کی تعداد بہت ہی کم ہے اس لیے مقامی منتظمین کے لیے، ہمہ وقت ہمارے ساتھ موجود رہنا اور ٹرانسپورٹ فراہم کرنا بے حد مشکل تھا۔

طیب میاں نے اس کا بہت اچھا اور موزوں حل یہ نکالا کہ مالاگا ایئرپورٹ سے ہی چاردن کے لیے ایک گاڑی کرائے پر بک کرالی چونکہ ان کے پاس کریڈٹ کارڈ اور مطلوبہ ڈرائیونگ لائسنس موجود تھا چنانچہ مروجہ طریقہ کار کے مطابق انھیں صرف مطلوبہ رقم ادا کرکے گاڑی کی چابی لینا تھی اور واپسی پر گاڑی کو وہیں دوبارہ پارک کرکے چابی کو ایک مخصوص ڈبے میں ڈال دینا تھا۔ اللہ اللہ اور خیر سلّا۔ کہ باقی سارا کام جی پی ایس نے کرنا تھا۔ سو سب کچھ اسی طرح سے ہوا۔

گاڑی بہت عمدہ اور تقریباً نئی تھی۔ ایئرپورٹ سے انوارالحق، محمد علی اور کچھ نوجوان دوستوں کے ساتھ یہ قافلہ ٹاکو اور ٹکا نامی ریستوران پہنچا جس کے مالک ناروے کے دوست پرویز خان اور ان کے معاون عزیزی محمد علی تھے۔ محمد علی، میرے برادر خورد احسن اسلام کے بچپن کے دوست خورشید انور کا چھوٹا بھائی نکلا۔ اس نے بتایا کہ وہ ہمارے فلیمنگ روڈ لاہور والے گھر میں خورشید کے ساتھ آیا جایا کرتا تھا اور اسے اپنی خوش بختی سمجھتا ہے کہ اسے اس پردیس میں اپنے بڑے بھائی کی خدمت کا موقع مل رہا ہے