منتخب کردہ کالم

نمل نالج سٹی….منصور آفاق

نمل نالج سٹی….منصور آفاق

ابھی عمران خان اقتدار میں نہیں آئے مگر وہ لوگ منہ چھپاتے پھرتے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ کپتان کے ہاتھ میں اقتدار کی لکیر ہی نہیں ہے۔ میں وقت کے سائن بورڈکو خوشگوار حیرت سے دیکھ رہا ہوں جس پر پی ٹی آئی کے حروف جل بجھ رہے ہیں۔ اُس کے سوا کوئی اور سیاسی جماعت اِس قابل ہی نہیں رہی کہ حکومت کی باگ ڈور سنبھال سکے۔ ہر طرف دماغوں اور دلوں میں صرف عمران خان کا نام دھڑک رہا ہے۔ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے میں نے انوار حسین حقی کی عمران خان سے والہانہ محبت دیکھ کر کہا تھا۔ ’’انوار کے سینے میں دل نہیں عمران دھڑکتا ہے۔ اللہ اکبر کہ آج ہر سینہ انوار حسین حقی کا سینہ بنا ہوا ہے۔میں میانوالی پہنچا تو نذیر یاد اور افضل بلوچ کی ہمراہی میں انوار حسین حقی تیار کھڑے تھے اور پھر گاڑی ڈھک کی پہاڑیوں کو چیرتی ہوئی نمل یونیورسٹی میں داخل ہوئی۔ وہ نمل یونیورسٹی جو نمل نالج سٹی میں بدلنے والی ہے۔ گیٹ پر ہمارا استقبال ’’رکھی‘‘ کے ملک طارق نے کیا۔ سیدھا سادہ سا پُر خلوص آدمی۔ اُس کا اِسی موڑ پر عرصہ دراز سے ایک پٹرول پمپ ہے۔ جہاں برسوں سے عمران خان قیام کرتے چلے آ رہے ہیں۔جہاں آج نمل یونیورسٹی ہے یہ جگہ ایک اجاڑ پہاڑ کی شکل میں عمران خان نے اِسی شخص کی محبت بھری آنکھوں سے دیکھی تھی۔ ملک طارق نے ہمیں یہاں کے ایڈمنسٹریٹر سعد

خان سے ملوایا۔ سعد خان پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے میں کام کرتے تھے قدرت نمل کالج کو نمل نالج سٹی میں بدلنے کے لئے انہیں یہاں لے آئی ہے۔ سعد خان نے ہمیں جو کچھ بتایا اور دکھایا اُس نے ایک پرانی یاد کو ذہن کے نہاں خانے سے نکال کر میری ہتھیلی پر رکھ دیا۔ یہ ایک نظم کا بند تھا جو میں نے 1990میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے دریائے واکس کے کنارے بیٹھ کر کہی تھی۔
اے میرے میانوالی ! ہم لوٹ کے آئیں گے
بے آب چچالی کے گم گشتہ ستارے پر
کچھی کے پہاڑوں میں دریاکے کنارے پر
ہم علم کی اک نگری اک روز بسائیں گے
ہم لوٹ کے آئیں گے
علم کی وہ نگری آباد ہونے والی ہے۔ بس ایک اتنا فرق پڑا ہے کہ میں نےدریائے سندھ کے کنارے پر شہرِ علم کا خواب دیکھا تھا عمران خان نے اسے نمل جھیل کے کنارے پر آباد کرنا شروع کیا ہے۔ اگلے کچھ برسوں میں یہاں پانچ مزید کالج اور ایک جنرل اسپتال قائم ہونے والا ہے۔ ایگری بزنس کالج کی عمارت اسی سال مکمل ہو جائے گی اور ایگری بزنس کالج کا الحاق ہالینڈکے صف اول کی یونیورسٹی سے کیا گیا ہے۔ ا س شُعبے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا کالج ہو گا۔ جس کا مقصد زراعت سے متعلق بزنس کو فروغ دینا ہوگا میڈیکل کالج اور بزنس کالج جلد شروع ہونے والے ہیں۔ میڈیکل کالج کےلئے شوکت خانم جنرل اسپتال کی تعمیر کا کام ان شاءاللہ جلدشروع ہوجائے گا۔ اس وقت نمل یونیورسٹی کے پاس ساڑھے آٹھ ہزار کنال زمین ہے۔ بہت جلد اردگرد کی کچھ زمینیں بھی اس نمل نالج سٹی کے لئے خرید لی جائیں گی اس وقت پاکستان کے53 دیگر اضلاع کے طالب علم یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیم کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ اس وقت یونیورسٹی میں لاہور کے طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ لاہور جہاں ہزاروں درسگاہیں ہیں۔ انہیں چھوڑ کر طالب علم نمل نالج سٹی میں پڑھ رہے ہیں۔ سعد خان نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے ہاں ہرفیکلٹی میں دس طلبہ کے لئے ایک ٹیچر ہے جو اپنے معیار کے اعتبار سے ملک بھر میں اپنی مثال نہیں رکھتا۔ جب کہ باقی تمام یونیورسٹیوں میں تیس سےچالیس طالب علموں کے لئے ایک ٹیچر رکھا جاتا ہے۔
عمران خان نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا۔ ’’سیاست میرا مشن ہے مگر تعلیم میرا جنون ہے۔ میں میانوالی میں نمل کے مقام پر ایک ’’شہر علم ‘‘ قائم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں اِس جنون اور اِس مشن کو ایک ساتھ دیکھتا ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ مشن کامیاب ہونے والا ہے اور مشن کی کامرانی جنون کو منزلوں تک پہنچا نے والی ہے ۔مشن کی کامیابی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ انہوں نے اپنے بیس ایم پی ایز کو ووٹ بیچنے کے جرم میں شوکاز نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ تقریباً پچھلے چالیس سال سے سینیٹ کے ووٹوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے آج تک کسی نے اس کرپشن کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ پہلی بار عمران خان نے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اس فیصلے سے تحریک انصاف اور زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ ووٹ تو نون لیگ کےبھی فروخت ہوئے ہیں مگر انہوں نےاُن ایم پیز کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جنہوں نے اپنے ضمیر کی قیمت وصول کی ہے۔ شہباز شریف نے ووٹ بیچنے والوں کے متعلق تحقیقات کا حکم دیا تھا مگر خوف زدہ ہوکر تحقیقات ختم کرادیں کہ کہیں یہ لوگ پارٹی چھوڑ کر ہی نہ چلے جائیں۔ ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف نون لیگ ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ کے سلوگن کو گلی گلی رسوا کررہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خود نون لیگ نے کبھی ووٹ کو عزت دی ہے؟ اقتدار کے زمانے میں شہباز شریف اور نواز شریف اپنے اُن نمائندوں سے کتنی بار ملے جنہیں عوام نے ووٹ دیئے تھے۔ کتنی بار اسمبلی میں گئے عوام کے ووٹ کے ساتھ پاکستانی تاریخ میں جو کچھ ہوتا آرہا ہے اس کی ایک بڑی ذمہ دار خود نون لیگ ہے۔ کہیں ووٹوں کے باکس میں سے ردی برآمد ہوئی تو کہیں آر اوز کی کہانیاں زبان زد عام ہوئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ غریب عوام کو کبھی ووٹ کا حق دیا ہی نہیں گیا کیونکہ ووٹ کا حق صرف ووٹ دینے تک محدود نہیں ووٹ دینے والوں کو ووٹ لینے کا حق بھی ہوتا ہے مگر پاکستان میں سیاست کے کرپٹ منظر نامے نے اپنا ایسا خوفناک جال بچھا رکھا ہے کہ کوئی شریف اور متوسط طبقے کا شخص الیکشن لڑنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا۔ کیا ووٹ کو اس لئے عزت دی جائے کہ وہ صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو دیا جا سکتا ہے۔ سچ یہی ہے جب تک الیکشن سے کرپشن نہیں نکلتی ووٹ کو عزت نہیں مل سکتی۔