منتخب کردہ کالم

نوازشریف کی جنگ!….ابراہیم راجا

نوازشریف کی جنگ!….ابراہیم راجا

خوف حد سے گزر جائے تو ختم ہو جاتا ہے، جب سب کچھ کھو جائے تو مزید کھونے کا ڈر نہیں رہتا۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے مزاحمت شروع ہوتی ہے۔ نواز شریف کے پاس کھونے کو اور کچھ نہیں، یہ کسی اور کا نہیں‘ خود نواز شریف کا خیال ہے۔ اسی لیے وہ لڑنے کا فیصلہ کر چکے۔
جنگ عسکری ہو، نظریاتی یا ذاتی بقا کی، اس کا ایک ہی اصول ہے، بغیر لڑے ہارنے کے بجائے لڑ کر ہارنا بہتر ہوتا ہے۔ نواز شریف کو لگتا ہے کہ وہ سب کچھ کھو چکے، چار سال مصلحتوں اور مفاہمتوں کے باوجود۔ اُن کا خیال ہے کہ انہوں نے ضرورت سے زیادہ سمجھوتے کیے، اپنی وزارتِ عظمیٰ میں‘ وہ اپنے اختیارات کی قربانی دیتے رہے اور قریبی احباب کی بھی۔ جہاں جہاں ان کے پاس ڈٹ جانے کا آئینی جواز تھا، وہاں بھی وہ پیچھے ہٹتے گئے، اپنی جگہ چھوڑ کر، دوسروں کو جگہ دینے کے لیے۔ پیچھے ہٹتے ہٹتے مگر وہ دیوار سے لگا دیئے گئے۔ جمہوری اقدار اور روایات کے معاملے میں ان سے کوتاہیاں ضرور ہوئیں۔ پارلیمان کو انہوں نے نظر انداز کیا اور اپنی پارٹی کو بھی، جمہوریت پسندوں کی کڑی تنقید کا بھی انہیں سامنا رہا، وہ مگر ان کوتاہیوں پر نہیں، کچھ اور معاملات پر موجودہ صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ اب اُن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تو وہ بے باک ہو چکے ہیں۔ وہ عمر کے اُس حصے میں ہیں جہاں ان کے پاس سیاسی طور پر متحرک رہنے کے لیے زیادہ سال نہیں بچے۔ اگران کی نااہلی ختم نہیں ہوتی، اگر انہیں پس منظر میں دھکیل دیا جاتا ہے، اگر انتخابات کے بعد بھی وہ سیاسی عمل سے باہر رہتے ہیں تو یہ صورتحال اُن کے لیے بے کیف اور بے مزہ ہو گی۔ چاہے اگلی حکومت ن لیگ کی ہی کیوں نہ ہو۔ جو شخص دو مرتبہ وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ وزیراعظم رہا ہو، اس کے لیے عملی سیاست سے غیر متعلق رہنا ممکن ہے؟ نوازشریف جانتے ہیں کہ حالات جس مخصوص رخ پر جا رہے ہیں، اس سے نہ صرف ان کی اپنی بلکہ ان کی سیاسی وارث مریم نوازکی سیاست بھی تابوت میں بند ہو جائے گی۔ مریم نواز کے پاس تو ڈوب کر پھر اُبھرنے کے لیے پوری زندگی پڑی ہے، نواز شریف کے لیے مگر وقت انتہائی کم ہے۔ کیا وہ اس صورت حال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے؟ ظاہر ہے نہیں۔ تمام جمع تفریق کے بعد نواز شریف نے مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے پارٹی میںکلیدی اہمیت رکھنے والے ارکان کو بھی اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ وہ ن لیگ میں قد کاٹھ رکھنے والے ساتھیوں کو مزاحمت پر قائل بھی کر چکے ہیں۔ ہاں ن لیگ کے اندر ایک بڑا سیاسی گروہ اور بھی ہے، وہ گروہ جو نواز شریف کا وفادار ہے لیکن وقتی مصلحت کے تحت مفاہمتی پالیسی کا حامی بھی ہے۔ اس گروہ کی رائے اگرچہ مختلف ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نواز شریف کے سامنے کھڑا ہو جائے گا۔ اس کا آخری فیصلہ بھی وہی ہو گا جو نواز شریف کا ہے۔
نواز شریف اب اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان کے ساتھ مزید کیا ہو سکتا ہے، وہ تین مرتبہ آئینی طور پر منتخب ہونے کے باوجود وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جا چکے، قید اور طویل جلا وطنی بھگت چکے، اب اور کیا؟ مزاحمتی پالیسی ن لیگ کی صفوں میں موجود کمزور مہروں کو اِدھر سے اُدھر کھسکا سکتی ہے، نواز شریف سے بہتر یہ کوئی نہیں جانتا۔ انہیں معلوم ہے کہ مارچ سے پہلے کوئیک مارچ کی باتیں کون اور کیوں کر رہا ہے، سینیٹ الیکشن سے پہلے عام انتخابات کے پیچھے کیا بھید ہے، دھرنوں کے فسانے کیا ہیں، حقیقت کیا ہے، طویل دورانیے کی نگران حکومت کے خدشات کیوں جنم لے رہے ہیں۔
نواز شریف یہ بھی جانتے ہیں کہ مزاحمتی پالیسی کے باعث اگلے الیکشن میں ان کے حریفوں کی قوت بڑھائی جا سکتی ہے، انہوں نے مگر پھر بھی حالات سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بظاہر اس کی چار اہم وجوہات ہیں۔ نواز شریف کا خیال ہے کہ مفاہمتی پالیسی کے باوجود ان کے ساتھ وہی ہو گا جس کا‘ اُن کے مطابق، پہلے ہی فیصلہ کیا جا چکا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ پچھلے چار برس میں مصالحتی پالیسی ”ہونی‘‘ کو نہیں ٹال سکی تو اب کیسے ر وک سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انہیں یقین ہے شہبازشریف ان کے خلاف نہیں جا سکتے، اگر وہ چاہیں بھی تو۔ بجا کہ خاندانی شکوے، شکایتیں اور رنجشیں بہت ہیں، پھر بھی شہباز شریف براہ راست نواز شریف کے مقابل کھڑے نہیں ہوں گے، اس لیے کہ یہ دونوں بھائیوں اور پورے شریف خاندان کی اجتماعی بقا کا مسئلہ ہے۔
شہباز شریف بھی جانتے ہیں کہ اگر نواز شریف مکمل”مائنس‘‘ ہو گئے تو اگلی باری انہی کی ہے۔ اگر بڑا بھائی سلاخوں کے پیچھے ہو اور چھوٹا بھائی اقتدار میں آجائے ، پھر ریاضت کرنے والوں نے جو ریاضت کی ہے، اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ کیا شیخ رشید، ان کے ہمنوائوں اور ہم خیالوں کے لیے یہ صورت حال قابل قبول ہو گی؟ اُن کے تعاون کا انہیں یہ صلہ ملے گا؟ شہباز شریف یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے سر پر حدیبیہ اور ماڈل ٹاون کیس کی تلوار پھر کیوں لٹکنے لگی ہے، حالیہ دھرنے میں پنجاب میں ہونے والے واقعات بھی ان کے لیے سبق آموز ہیں۔
نواز شریف کی مزاحمت کی تیسری وجہ مریم نواز ہیں۔ وہ گزشتہ چند برس سے سیاسی معاملات میں نواز شریف کے ساتھ پوری طرح متحرک ہیں، کبھی پسِ منظر، کبھی پیش منظر۔ اُن کی سیاسی تربیت نوے کی دہائی والے نواز شریف نے نہیں، دو ہزار دس کی دہائی والے نواز شریف نے کی۔ وہ اپنے والد کی سیاسی جانشین ہیں۔ انہوں نے خود کو اپنے سگے اور چچا زاد بھائیوں سے زیادہ قابل اور فعال ثابت کیا ہے۔ موجودہ صورت حال ان کے لیے بھی اعصاب شکن ہے، انہوں نے مگر اب تک اپنی شخصیت میں بچکانہ پن نہیں، خاصی پختگی دکھائی ہے۔ وہ لیڈر بننے کے مرحلے میں ہیں، نواز شریف یہ جانتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ موجودہ صورت حال میں مریم نواز کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ مقدمات اور اس کے بعد سزا؟ نواز شریف جانتے ہیں کہ ایسا ہوا تو مریم نواز پوری طرح لیڈر کے روپ میں ڈھل جائیں گی۔ ان کے پاس سزائیں بھگت کر سیاست میں واپسی کے لیے بہت وقت ہے، یہ سب برداشت کرنے کو اگرچہ پہاڑ جیسا حوصلہ چاہیے۔
نواز شریف کی مزاحمت کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ وہ بطور سیاسی لیڈر اپنا تاثر تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ماضی کی غلطیوں کا وہ برملا اعتراف کر چکے، پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں جانے پر انہیں پچھتاوا ہے، اسّی اور نوے کے عشرے کی سیاست پر انہیں ندامت ہے، اب وہ اُس کھیل کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں‘ جس کا حصہ کبھی وہ خود بھی رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تاریخ انہیں مفاہمت نہیں، مزاحمت کی علامت کے طور پر یاد رکھے۔ وہ ٹھیک کر رہے ہیں یا غلط، اُن کا یہ نظریاتی روپ اصلی ہے یا ذاتی بقا کے لیے مصنوعی، اس کا فیصلہ میں اور آپ نہیں، آنے والا وقت کرے گا۔