منتخب کردہ کالم

پرویز مشرف کی قیادت میں مہاجر اتحاد کا خواب بکھر گیا،تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

جہانگیر

پرویز مشرف کی قیادت میں مہاجر اتحاد کا خواب بکھر گیا،تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر جنرل پرویز مشرف کی بڑی دیرینہ خواہش ہے کہ مہاجر انہیں اپنا متفقہ لیڈر بنا لیں، لیکن ماضی میں اس سلسلے میں جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں وہ سب اکارت گئیں جب وہ صدارت سے استعفا دے کر کوچۂ اقتدار سے رخصت ہوئے تو انہوں نے اس دوران بڑی کوششیں کیں کہ ان کی حامی جماعتوں میں سے کوئی نہ کوئی انہیں صدارت پیش کردے، لیکن کسی بھی جماعت نے ان کی خواہش پوری نہیں کی، جس جماعت کی صدارت پر ان کا سب سے زیادہ حق تھا وہ مسلم لیگ (ق) تھی کیونکہ وہ اس جماعت کی تشکیل کا بجا طور پر کریڈٹ لیتے تھے۔ اس کا اجمالی تذکرہ انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح ’’اِن دی لائن آف فائر‘‘ میں بھی کیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت اسے تسلیم نہیں کرتی، ان کا خیال تھاکہ جب وہ باقاعدہ طور پر سیاست میں آئیں گے تو جو جماعت سب سے پہلے انہیں پارٹی صدارت پیش کرے گی وہ یہی جماعت ہوگی کیونکہ انہیں تو وہ دس بار وردی میں صدر منتخب کرانے پر بھی آمادہ تھی لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ جب انہوں نے یہ پارٹی تخلیق کروائی اس وقت وہ اقتدار کے تخت پر براجمان تھے۔ ان کے اشارۂ ابرو پر ہرکارے حرکت میں آ جاتے تھے اور ناممکن کو بھی ممکن کر دکھاتے تھے جیسے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے بھی دو ٹکڑے کر دکھائے چشم زدن میں سب کچھ ہو جاتا۔ اس توڑ جوڑ میں انہیں کبھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑا، بس ایک ہی بار ایسا ہوا اور یہی ناکامی ان کے زوال کی داستان کا حرفِ آغاز ٹھہری۔ جسٹس افتخار چودھری سے استعفا تو انہوں نے طلب کرلیا تھا لیکن جب انکار ہوا تو پھر کچھ بھی سلامت نہ رہا اور بالآخر انہیں خود استعفا دینا پڑا۔ شیخ رشید احمد کی عوامی مسلم لیگ کی تشکیل میں بھی پرویز مشرف کی نیک خواہشات شامل تھیں لیکن وہ بھی اپنی جماعت کے دروازے ان کیلئے کھولنے پر تیار نہ ہوئے۔ ایم کیو ایم اور اس کے بہت سے لیڈر بھی جنرل پرویز مشرف کے احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے لیکن اس جماعت نے بھی انہیں اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔ اس پس منظر میں جب یہ خبر آئی کہ پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان نے مل کر ایک ایسا اتحاد بنالیا ہے جو ایک منشور، ایک نشان اور ایک جھنڈے تلے الیکشن لڑے گا تو پرویز مشرف کو بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے اس اتحاد کا خیرمقدم کیا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ آگے چل کر پرویز مشرف کو اس اتحاد میں نمایاں جگہ مل سکتی تھی لیکن ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک ہی دن میں یو ٹرن لے لیا۔ 16 گھنٹے کی طویل ملاقات کے نتیجے میں جس اتحاد کا اعلان ممکن ہوا تھا وہ تقریباً اتنے ہی گھنٹے بعد ریت کے گھروندے کی طرح ڈھے گیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کو کیا شکوے اور شکایتیں تھیں اس کا اظہار وہ گزشتہ روز اپنی طویل پریس کانفرنس میں کرچکے ہین جس کے آخر میں انہوں نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو رلا دیا۔ ان کی اس گریہ زاری کے بعد انہیں اپنا وہ اعلان نصف گھنٹے کے اندر اندر واپس لینا پڑا جس کے تحت وہ سیاست چھوڑ دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ وہ امریکہ چلے جاتے ہیں لیکن یہ سب اعلانات کرنے کے بعد انہیں کارکنوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے سیاست سے علیحدگی کا اعلان واپس لینا پڑا۔ اب سوال یہ ہے کہ جس اتحاد کیلئے اتنی طویل محنت کی گئی تھی وہ پانی کے بلبلے کی طرح کیوں ختم ہوکر رہ گیا، اس کا جواب تجزیہ نگار یہ دیتے ہیں کہ جس غیر منطقی انداز مین اتحاد تشکیل پایا تھا اس کا انجام یہی ہونا تھا۔ آئندہ بھی اگر ایسی ہی خام کاری کا مظاہرہ ہوگا تو بھی نتیجہ یہی رہے گا’ فاروق ستار کا موقف تو کھل کر سامنے آچکا ہے مصطفی کمال پر انہوں نے ’’باریک کام‘‘ کرنے کا جو الزام دھرا اس پر ان کا موقف آنا باقی ہے تاہم کہانی کے اس نئے موڑ پر سب سے زیادہ پریشانی جنرل پرویز مشرف کو ہے جن کا خیال تھا کہ آگے چل کر وہ ان تمام متحدہ جماعتوں کی قیادت سنبھال لیں گے‘ نام بدلنے کی جو تحریک چلائی جا رہی ہے اس کے محرک بھی وہی ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ ایک لسانی جماعت کی قیادت سنبھالنے سے ان کے سیاسی مقاصد پورے نہیں ہوں گے۔ جنرل پرویز مشرف دوبارہ سیاست میں متحرک کردار ادا کر پائیں گے یا انہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا وہ ملک میں واپس آکر اپنے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ ان کا طرزعمل تو بظاہر اس سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے انہوں نے ساری امیدیں عدلیہ اور فوج سے وابستہ کر رکھی ہیں اور ان کے خیال میں وہ اس وقت بہت اچھا کردار ادا کر رہی ہیں، لیکں سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کو سیاسی میدان میں مشکلات درپیش ہیں اور اسے کسی نہ کسی طرح سیاسی میدان سے باہر کرنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ اگر کامیاب بھی ہو جائیں تو کیا ضروری ہے اس کا فائدہ جنرل پرویز مشرف کو ہی پہنچے، ان کے خلاف آئین شکنی کا کیس ہی اگر دوبارہ کھل گیا تو اس سے بچنا محال ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اگر اقتدار کے کھیل میں اس وقت مشکلات کا شکار ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اس کے سیاسی فائدے جنرل پرویز مشرف کی جھولی میں آگریں گے؟