منتخب کردہ کالم

چین میں اپنوں کے درمیان…(3)…..رئو ف طاہر

چین میں اپنوں کے درمیان…(3)…..رئو ف طاہر

جس طرح اپنے ہاں مقولہ ہے‘ (ترجمہ) ”جس نے لاہور نہیں دیکھا‘ وہ پیدا ہی نہیں ہوا‘‘ دیوارِ چین کے متعلق مائوزے تنگ نے کہا تھا ”جو شخص پیکنگ آیا (تب بیجنگ کو پیکنگ کہا جاتا تھا) اور اس نے دیوار چین نہیں دیکھی‘ اس نے کچھ نہیں دیکھا‘‘۔ بیرونی حملہ آورروں سے دفاع کے لیے شہر کے گرد دیوار کی تعمیر صدیوں پرانا آئیڈیا ہے۔ شمال کے حملہ آوروں سے تحفظ کے لیے ”دیوارِ چین‘‘ کی تعمیر بھی اسی دفاعی حکمت عملی کا نتیجہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر کے مختلف مراحل میں تقریباً دس لاکھ لوگ کام آئے‘ جن میں غالب تعداد قیدیوں کی تھی۔ دیوارِ چین منگول حملہ آوروں کی راہ نہ روک سکی اور یہاں 90 سال منگول سلطنت قائم رہی۔ دیوار چین اب دفاعی حصار نہیں‘ لیکن دنیا کے سات‘ آٹھ عجائبات میں اس کا شمار ہوتا ہے‘ جسے دیکھنے کے لیے غیر ملکی سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔
ہفتے کی یہ صبح بہت سرد تھی۔ تیز ہوائوں نے اسے شدید تر بنا دیا تھا۔ رگوں میں اتر جانے اور لہو کو منجمند کر دینے والی سردی۔اسی باعث کیبل کار بھی بند تھی۔ میں اور میاں سیف الرحمن چار‘ ساڑھے چار سو میٹر کی بلندی پر ٹھہر گئے۔ بلندی کا پیدل سفر ویسے بھی آسان نہیں ہوتا۔ یہاں سامنے تیز اور سرد ہوا کے جھکڑوں بھی مزاحم تھے لیکن ہمارے نوجوان ساتھیوں کا عزم اور حوصلہ ناقابل شکست تھا‘ ان کا کہنا تھا‘ وہ سات سو کا ہندسہ عبور کر کے ہی واپس آئیں گے اور وہ یہ کر گزرے۔
شام کو بیجنگ کے ایک حصے میں Forbidden City کا مشاہدہ بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ یہ قدیم بادشاہوں کے محلات ہیں‘ ان کی سطوت اور جبروت کے مظہر اس علاقے میں ”رعایا‘‘ کا داخلہ ممنوع تھا‘ کوئی بھولا بھٹکا ادھر آ نکلتا تو وہ جان سے جاتا‘ ”خوش قسمت‘‘ ہوتا تو باقی زندگی جیل کی نذر ہو جاتی۔
اتوار کی صبح فاسٹ ٹرین سے شنگھائی کے لیے روانہ ہوئے یہ سوا چار گھنٹے کا سفر تھا۔ سہ پہر تک یہاں ”سموگ‘‘ ختم ہو چکی تھی۔ اپنے کراچی کی طرح‘ بہت پہلے سمندر کے کنارے یہ مچھیروں کی بستی تھی اور اب دنیا کی دوسری بڑی اکانومی کا صنعتی‘ مالیاتی اور تجارتی مرکز ہے۔ ”طاہرہ‘‘ اور اس کے دو ساتھی بھی ہمارے ہم سفر تھے لیکن ”گائیڈ‘‘ کے طور پر‘ مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے والی مریم تھی۔ اس کی والدہ اور نانی عرب خواتین کی طرح حجاب کا اہتمام کرتی ہیں۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل مریم کو انگریزی پر مکمل عبور تھا۔ وہ غیر ملکی طلبہ کو پڑھاتی ہے۔ اس کا میاں بھی جاب کرتا ہے ‘دونوں کی تنخواہ اچھی خاصی ہے لیکن اپنے سات سالہ بیٹے کی پرائیویٹ سکول میں تعلیم کے لیے وہ گائیڈ کے فرائض بھی انجام دیتی ہے کہ یہاں پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم بہت مہنگی ہے اور سرکاری سکولوں کے معیار سے والدین مطمئن نہیں۔
شنگھائی فلک بوس عمارتوں کا ”جنگل ‘‘ہے لیکن ایک خاص ڈسپلن کے ساتھ۔ جدید چین میں یہ عمارتیں امریکی طرز تعمیر کا نمونہ ہیں۔چین کا روایتی آرکیٹکچر گم ہوتا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آپ نیویارک میں ہیں۔ یہاں 632 میٹر بلند 128 منزلہ شنگھائی ٹاور بھی ہے‘ جسے دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت قرار دیا جاتا ہے۔ سب سے بلند عمارت کا اعزاز828میٹر کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے ”برج الخلیفہ‘‘ کو حاصل ہے۔ کبھی یہ اعزاز نیویارک کے ٹوئن ٹاورز کا تھا۔ امریکہ کی اقتصادی قوت کا یہ عظیم ترین مظہر نائن الیون کو زمین بوس ہو گیا۔ شنگھائی میں بُدھا کا چار سو سال قدیم ٹیمپل سارے کاسارا سونے کا بنا ہوا ہے۔ یہاں 80 یونیورسٹیاں ہیں۔ قدیم طرز کے پُرانے شنگھائی کا اپنا حسن ہے۔ ایک مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم نے ظہر کی نماز کی بات کی تو مریم نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا‘ ابھی وقت نہیں ہوا۔ ابھی اس میں ایک گھنٹہ ہے۔
پرانے شنگھائی میں “YU Garden” بھی سیاحوں کی دلچسپی کی خاص چیز ہے۔ 1559ء میں بنائے گئے اس باغ کو یہاں سرکاری طور پر آثار قدیمہ کا درجہ حاصل ہے‘ یہ چین کے قدیم طرز باغبانی کا شاہکار ہے۔ سیاحوں کے ہجوم میں ایک چہرہ شناسا سا لگا۔ وہ بھی ہم سب کی طرف متوجہ تھی۔ قدرے تامل کے ساتھ تعارف کا آغاز ہوا تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ سے آئی ہے۔ موصوف یہاں کسی کانفرنس میں مصروف تھے اور وہ فرصت پا کر سیر کو نکل آئی۔ دونوں میاں بیوی کا تعلق بمبئی سے ہے‘ لیکن برسوں پہلے امریکہ میں جا بسے ۔پرویز بشیر نے بتایا کہ وہ ممبئی جا چکا ہے ‘ جہاں اس نے بال ٹھاکرے کا انٹرویو بھی کیا لیکن ان میاں بیوی کو اب بال ٹھاکرے کے ممبئی سے کوئی رغبت نہیں رہی۔
اس نے شوہر کا نام خسرو اور اپنا نام ”ہِلّا‘‘ بتایا۔ اس کے بقول‘ یہ نام اس کی دادی نے رکھا تھا‘ یہ شاید عراق میں کسی جگہ کا نام ہے۔ یہ جان کر کہ ہم سب لاہور سے ہیں‘ وہ بہت خوش ہوئی اور بتایا کہ اس نے لاہور کی بہت تعریف سنی ہے اور اس شہرِخوباں کو دیکھنے کی شدید خواہش رکھتی ہے۔ یاسر حبیب نے قدرے شوخی سے پوچھا : آپ اس عمر میں بھی اتنی گریس فل ہیں۔جس پر قدرے خفگی کا (مصنوعی) اظہار کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا‘ تم مجھے مکھن لگانے کی کوشش کر رہے ہو؟
شنگھائی میڈیا گروپ کا دورہ بھی اس وزٹ میں ایک اہم ایونٹ تھا۔ 1968ء میں قائم ہونے والے اس ریڈیو کے اب 13 چینلز ہیں‘ چالیس کروڑ سامعین تک اس کی رسائی ہے‘ سب سے زیادہ پسندیدگی میوزک کے لئے ہے۔ اس کے بعد نیوز کا نمیر آتا ہے۔ مختلف پروگراموں میں سامعین کی براہ راست کالز بھی لی جاتی ہیں جنہیں سنسر کئے بغیر نشتر کیا جاتا ہے۔
شنگھائی کی دوسری شام ہم ”چنگ چو‘‘ کے لیے محو پرواز تھے۔ یہ وسطی چین کے صوبے HENAN کا اہم شہر ہے۔ کہنے والے اسی کو اصل چین کہتے ہیں۔ گندم‘ چاول اور پھولوں کی پیداوار کے باعث یہ میدانی علاقہ حملہ آوروں کے لیے خاص کشش کا باعث تھا۔ گزری صدیوں میں یہ آٹھ سلطنتوں کا دارالحکومت رہا۔ یہاں کی سیاس انٹرنیشنل یونیورسٹی کا شمار چین کی بڑی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں چھبیس ہزار سٹوڈنٹس اور چودہ سو فل ٹائم فیکلٹی ممبرز ہیں۔ ڈیڑھ سو غیر ملکی اساتذہ میں بڑی تعداد امریکیوں کی ہے۔ یونیورسٹی کا کل رقبہ تقریباًچار ہزار ایکڑ ہے۔ ایک سو سے زائد لیبارٹریاں اور لائبریریاں ہیں۔ ساٹھ ہزار مربع میٹر پر محیط نئی لائبریری تیس لاکھ کتابوں اور پچاس ہزار ”ای بکس‘‘ کے ساتھ اساتذہ اور طلبہ کے لیے چوبیس گھنٹے کھلی رہے گی۔ یہاں غیر ملکی طلبہ کے لیے سکالر شپس بھی ہیں۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی خواہش تھی کہ برادر ملک پاکستان کے طلبہ بھی ان سکالر شپس سے مستفید ہوں۔
”چنگ چو‘‘ میں ہمارے امیرِ سفر محمد مہدی کے کچھ چینی دوست بھی تھے جنہوں نے انہیں عشائیے پر مدعو کر رکھا تھا۔ یہاں چین کے قدیم مسلمانوں کا محلّہ بھی ہے اور اس کے ساتھ مسلم سٹریٹ بھی۔ پاکستانی بھائیوں کے لئے یہاں محبت اور مدارات کا خاص ماحول ہے۔
”چنگ چو‘‘ سے کوئی دو گھنٹے کی مسافت پر ڈینگ فنگ میں 1500 سال قدیم شائولن ٹیمپل بھی سیاحوں کی توجہ کا محور بنتا ہے۔ کنگ فو ہمارے خیال میں تو محض ایک مارشل آرٹ ہے لیکن یہاں یہ ایک مذہبی روایت بھی رکھتا ہے۔ (ہم بچپن میں پاکستان میں بروس لی کی جاپانی فلمیں دیکھا کرتے تھے) ہمیں بتایا گیا کہ اس علاقے کے 58 سکولوں میں بچوں کے لیے کنگ فو کی خصوصی تربیت کا اہتمام ہے۔ یہاں پندرہ سو سال قدیم درخت بھی ہیں۔ مذہبی لوگ شائولن ٹیمپل میں بدھا کے مجسموں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے اور سر جھکاتے نظر آئے۔بدھ مت کی تعلیم کے مطابق یہاں لنچ میں صرف سبزیاں تھیں‘ ہر ڈش کا اپنا مزہ تھا۔