منتخب کردہ کالم

کراچی میں قیادت کی ” جنگ”….الیاس شاکر

کراچی میں قیادت کی ” جنگ”….الیاس شاکر

چین کے بانی لیڈر مائوزے تنگ اپنے دور کے تمام رہنمائوں سے آگے تھے … 75سال کی عمر میں سردیوں کی رات میں منفی دس درجہ حرارت کے پانی میں سوئمنگ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں… انگریزی زبان کے ماہر مائو نے پوری زندگی انگریزی کا ایک لفظ نہیں بولا… ان کی قوت برداشت اتنی تھی کہ اگرانہیں انگریزی میں لطیفہ بھی سنایا جاتا تو وہ اس وقت خاموش رہتے لیکن جب اس کا ترجمہ کیا جاتا تو قہقہے لگاتے تھے ۔
رستم زماں گاما پہلوان کے سرپر ایک کمزور دکاندار نے باٹ دے مارا… گاما کے سر سے خون فوارے کی طرح بہنے لگا لیکن وہ مفلر سر پر لپیٹ کر گھر چلے گئے۔ لوگوں نے کہا ”پہلوان !!آپ سے یہ توقع نہ تھی ایک کمزور دکاندار کو جواب نہ دے سکے ‘‘۔ گامے نے جواب دیا ”مجھے پہلوان میری طاقت نے نہیں میری برداشت نے بنایا ہے اور جب تک میری برداشت رہے گی میں رستم زماں رہوں گا۔ انسان کا اصل حسن اس کی برداشت ہوتی ہے ۔‘‘
کراچی کی موجودہ سیاست پر نگاہ ڈالیں توآپ کو دوچیزوں کی کمی محسوس ہو گی‘ ایک قوت برداشت اور دوسری لیڈرشپ۔ چند روز سے کراچی کی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے… میڈیا کے کیمرے احتساب عدالت سے ہٹ کر کراچی کی جانب مرکوز ہوگئے ہیں… کراچی کے صحافیوں کا کام اچانک بڑھ گیا ہے… تجزیہ کارہوں یا نیوز اینکرکراچی کی سیاست میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں… یہاں تک کہ ماہرینِ معاشیات بھی کراچی کی سیاست پر ”ماہرانہ ‘‘گفتگو فرمارہے ہیں… جنہیں کراچی کی گلیوں تک کا علم نہیں ‘جو علاقوں سے واقف نہیں‘ وہ کراچی میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔
کاش آج جتنا ”پاورفل‘‘ الیکٹرانک میڈیا ” پاورفل‘‘ ایم کیو ایم کے دور میںبھی نظر آتا… صحافت اپنے جوبن پر ہوتی… ایک دو تین کے بعد ہونے والی خاموشی کوتوڑنے والاکوئی اینکرپرسن ہوتا۔ جو سوالات فاروق ستار اور مصطفی کمال سے پوچھے جارہے ہیں وہ بانی ایم کیو ایم سے بھی پوچھے جاتے… ان کے دورکے جلسوں کے شرکاء کی تعداد پر ہی کوئی بحث ہو جاتی… لیکن یہ سب کچھ کاش ہی رہا… البتہ آج کی ”ٹھنڈی‘‘ ایم کیو ایم سے ”گرماگرم‘‘ سوالات پوچھنا ہر اینکر اپنا اولین فرض سمجھتا ہے ۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے بھی یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعی بانی ایم کیوایم کے جانشین بن سکتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح پارٹی اور سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا‘ اس سے ماضی کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ان کے ساتھی رہنمائوں کے ردعمل نے تو ماضی کا بھی ریکارڈ توڑ دیا۔ فرق اتنا تھا کہ پہلے ”بھائی نہیں ‘بھائی نہیں ‘‘کی آوازیں آتی تھیں اس بار ”نامنظور ‘نامنظور‘‘کے نعرے لگتے رہے۔ فاروق ستار راتوں رات ”ہیرو‘‘ بن کرمقبولیت کی معراج پر پہنچ گئے۔ انہیں خود اندازہ نہیں تھا کہ ان کے لئے ایسا بھی ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے والدہ کا حکم مانا اور اب تک سوشل میڈیا پر ”راج ‘‘کررہے ہیں۔ وہ ٹوئٹرپرمکمل طور پر چھائے ہوئے ہیں۔ اسی حوالے کی چند ٹویٹس پیش خدمت ہیں۔
ایک صارف ڈاکٹر حرا نے ٹویٹ کیا ”فاروق ستار نے ایم کیو ایم پاکستان چھوڑی، میں باتھ روم گئی پھر واپس آئی تو فاروق ستار نے ایم کیو ایم پاکستان میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی تھی۔ زمانہ کتنا فاسٹ ہو گیا ہے۔
ایک اور صارف نے فاروق ستار کے دستبرداری کے یو ٹرن کے بعد الطاف حسین اور شاہد آفریدی کی تصاویر ٹویٹ کیں اور لکھا ”یہ سب کچھ کر چکے ہیں، کئی بار‘‘۔
فاروق ستار کے لیے بالی ووڈ کی مشہور فلم ”دیوار‘‘ کا ڈائیلاگ استعمال کیا‘ جس میں امیتابھ بچن‘ ششی کپور سے کہتے ہیں ”آج میرے پاس پیسہ ہے، بنگلہ ہے، گاڑی ہے، بینک بیلنس ہے اور تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘اس کے جواب میں ششی کپور کہتے ہیں ”میرے پاس ماں ہے۔‘‘
اسی طرح ایک صارف نے لکھا کہ ”مصطفی کمال: میرے پاس انیس قائم خانی، ارشد وہرا، رضا ہارون ہیں‘ تمہارے پاس کیا ہے؟ فاروق ستار: ”میرے پاس ماں ہے۔‘‘
ایک اور صارف نے ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہان کے درمیان فرق کو کچھ اس طرح بیان کیا ”ایم کیو ایم لندن اور پاکستان میں فرق صرف وزن کا ہے… الطاف ٹنوں میں جبکہ فاروق ستار کلوگراموں میں ہیں‘ استعفوں کی واپسی سمیت تمام عادات مشترک۔
ایک اور صارف نے سیاسی اتحاد کے ختم ہونے کو بیان کر تے ہوئے لکھا ”جب ماں باپ شادی سے راضی نہ ہوں تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے ‘امی نہیں مان رہیں، آپ مجھے بھول جائیں‘ابھی چھوارے بھی نہیں بٹے تھے کہ بارات واپس چلی گئی۔‘‘
فاروق ستار کے سیاست سے دستبردار ہونے کے اعلان پر” فاروق بھائی نہیں‘‘ کے نعرے بھی لگے‘ اس بارے میں ایک صارف نے لکھا ہے ”فاروق ستار کی بیگم بھی نعرے لگاتی رہیں ‘فاروق بھائی نہیں فاروق بھائی نہیں‘‘۔
کراچی کے گلی کوچوں کی صورتحال بھی سوشل میڈیا سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ لوگوں کی گفتگو کا مرکز و محور فاروق ستارہی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ مصطفی کمال نے ہاتھ کردیا… تو کچھ کہتے ہیں فاروق بھائی سیانے نکلے۔ بہرحال کراچی والوں کو زبردستی کی شادی کی خوشی چوبیس گھنٹے بھی نصیب نہ ہو سکی ۔
کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم اتنی آسانی سے نہیں ملیں گی… مہاجر ووٹر اور مہاجر لیڈر بڑی مشکل سے سمجھتا ہے … اسی لئے تو تحریک انصاف کو کراچی سے 16لاکھ ووٹ لینے میں ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا… اور وہ ووٹ بھی عمران خان سے محبت کا نہیں بلکہ ایم کیو ایم سے نفرت کا تھا۔ جس وقت مصطفی کمال اور فاروق ستار مشترکہ پریس کانفرنس کررہے تھے پوراملک حیرت کے سمندر میں غوطے لگارہا تھا… لیکن پھر جب فاروق ستار نے ایک ہی دن میں دوپریس کانفرنسیں کیں تو سب کو حیران کردیا… مصطفی کمال مشترکہ پریس کانفرنس سے ایک روز قبل فاروق ستار پرخوب گرج اور برس رہے تھے لیکن اس کے ایک دن بعد فاروق ستار نے بھی دل کی بھڑاس نکال لی۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیا تھا ؟؟ قوت برداشت کی کمی دونوں جانب نظر آئی… اور یہ پیغام بھی ملا کہ مستقبل میں اگر دونوں پارٹیوں کا انضمام یا الحاق ہوا تو لیڈرشپ کوئی اور کرے گا… فاروق ستاراورمصطفی کمال بڑے لیڈر ضرور بن گئے ہیں لیکن جن مہاجروں کی قیادت الطاف حسین کرچکے ہوں ان کا رہنما بننے کے لئے ابھی بہت وقت درکار ہے… اس صورتحال میں سب سے موزوں اور ”پرفیکٹ ‘‘شخصیت پرویز مشرف کی ہے… وہ کسی بھی متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ بن سکتے ہیں… اس جماعت کو کراچی سے پورے ملک میں لے جاسکتے ہیں… اور اسی جماعت کا وزیراعظم ملک اورصوبہ سندھ پر حکمرانی بھی کرسکتا ہے… لیڈر کا قد جتنا بڑا ہوتا ہے پارٹی بھی اتنی ہی بڑی بنتی جاتی ہے ۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں بنانا اور انہیں خود ختم کرنا روایت بنتا جا رہا ہے … جس کا ثبوت ایم کیو ایم ‘مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کی صورت میں موجود ہے۔ ان تینوں جماعتوں نے وہ عروج دیکھا جو کسی اورکے حصے میں ابھی تک نہیں آیا‘ لیکن ان تینوں میں ٹوٹ پھوٹ اور تباہی بھی ان کے اندر سے ہی ہوئی… ”باہر‘‘ والوں نے بہت کوششیں کیں لیکن کامیاب نہیں ہوسکے اسی لئے انہیں خود ہی یہ کرنا پڑا۔
اس وقت اصل لڑائی مہاجروں کی قیادت پر ہے… اور سب مہاجروں کے لیڈر بننا چاہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی یہ کام مہاجر نام لے کر کرنا چاہتا ہے اور کوئی نام لئے بغیر۔