منتخب کردہ کالم

کوئٹہ میں پاکستان کی آواز ………..رئوف طاہر

کوئٹہ میں پاکستان کی آواز ………..رئوف طاہر

کوئٹہ میں یہ قومی یکجہتی کا دلکشا منظر تھا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے معزول وزیراعظم کے لیے بلوچستان کے پشتونوں اور بلوچوں نے دیدہ دل فرش راہ کر دیئے تھے۔ بلوچستان میں دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے۔ دارالحکومت کوئٹہ میں بارود سے بھری گاڑی اور خودکش حملہ آوروں کی موجودگی کی خبریں آ رہی تھیں اور سرکاری ہسپتال ہائی الرٹ پر تھے۔ فیض آباد میں خادم حسین رضوی کا دھرنا ختم ہو گیا تھا لیکن اس دوران جو جذباتی لہر اٹھی‘ اس کے اثرات باقی تھے۔
یہ شاخِ نور جسے ظلمتوں نے سینچا ہے
جو پھل سکی تو شراروں کے پھول لائے گی
نہ پھل سکی تو نئی فصلِ گل کے آنے تک
ضمیرِ ارض میں اک زہر چھوڑ جائے گی
لیکن معزول وزیراعظم کی خطر پسند طبیعت کسی خدشے کو خاطر میں لانے کو تیار نہ تھی۔ وہ پروگرام کے مطابق 2 دسمبر کو کوئٹہ پہنچے اور ملی اتحاد و یکجہتی کا نیا باب رقم ہو گیا۔ بُلٹ پروف سکرین کو ہٹاتے ہوئے ان کا کہنا تھا‘ میرے عوام اور میرے درمیان یہ رکاوٹ بھی کیوں؟ میری حفاظت میرے اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تب چاروں طرف جذبوں کا طوفان تھا اور ولولوں کا سیلاب‘ ہزاروں زبانیں ”تیری آواز‘ میری آواز‘ میاں نواز‘‘ اور ”پاکستان کی آواز‘ میاں نواز‘‘ پکار رہی تھیں۔ ”وزیراعظم نوازشریف‘‘ کے نعروں کی گونج بھی کم نہ تھی۔ یہ عبدالصمد خاں اچکزئی کی 44 ویں برسی کی تقریب تھی‘ جس کا اہتمام پختون خوا ملی عوامی پارٹی نے کیا تھا‘ عبدالصمد خاں کے صاحبزادے محمود خاں اچکزئی جس کے سربراہ ہیں۔ عبدالصمد خاں خطے میں انگریز استعمار کے خلاف سرفروشانہ جدوجہد کی علامت تھے۔ تب انہیں ”بلوچی گاندھی‘‘ کا نام بھی دیا جاتا تھا (صوبہ سرحد میں خان عبدالغفار خان ”سرحدی گاندھی‘‘ کہلائے)
تقسیم کے ساتھ تاریخ کا ایک باب اختتام کو پہنچا‘ اب ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ فسادات کا زور کم ہوا تو قائداعظمؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس بلایا۔ یہ اجلاس گورنر جنرل ہائوس کی بجائے کراچی کے خالقدینا ہال میں منعقد ہوا کہ گورنر جنرل ہائوس کسی سیاسی جماعت کی نہیں (چاہے وہ پاکستان کی خالق ہی کیوں نہ ہو) ریاستِ پاکستان کی علامت تھا۔ (حیرت ہے‘ مسلم لیگ نون کی نئی مجلس عاملہ کے ارکان میں سندھ اور کے پی کے گورنر بھی نامزد کئے گئے ہیں) اس اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ اِدھر پاکستان مسلم لیگ‘ جس کے کنوینر لکھنئو سے آنے والے خلیق الزماں قرار پائے‘ اُدھر ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لیے انڈین مسلم لیگ‘ میرٹھ (یو پی) کے نواب محمد اسماعیل خاں اس کے صدر بنے۔ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لئے قائداعظم کا فرمان تھا کہ اب انہیں ہندوستان کے شہری کے طور پر وہاں کے آئین و قانون کی حدود میں سیاست کرنا ہے۔ یہ وہ مسلمان تھے‘ تقسیم کے لیے جن کا کردار تاریخ کا روشن باب تھا۔ ”بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ ”لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے نعروں کی گونج میں ان کی آواز بلندتر ہوتی تھی۔ اب نئے سیاسی حقائق میں انہیں نئی سیاست کرنا تھی۔ نواب محمد اسماعیل اس کے بعد بھی ہندوستان کی پارلیمنٹ کے رکن رہے‘ حسرت موہانی یوپی اسمبلی کے ممبر تھے۔ ایم کیو ایم کی نسرین جلیل کے تایا ظہیرالحسن لاری بھی یہاں ان کے ہم نشین تھے‘ البتہ کچھ عرصہ بعد ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے۔
یہی ”اصول‘‘ اِدھر پاکستان میں رہ جانے والے ان لوگوں کے لیے تھا جو تقسیم کے مخالف رہے تھے لیکن اب پاکستان کے وفادار شہری بن کر انہیں یہاں کی سیاست میں حصہ لینے کا پورا حق تھا اور اس حقیقت سے کسے انکار ہو گا کہ پاکستان بن جانے کے بعد ان کی حب الوطنی سکہ بند مسلم لیگیوں سے کم نہ تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خاں‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس احرار اسلام سے وابستہ رہے‘ وہ احرار کے ترجمان اخبار ”آزاد‘‘ کے ایڈیٹر بھی تھے۔ آغا شورش کاشمیری بھی اسی قافلے کا حصہ تھے۔ پاکستان بن گیا تو مملکتِ خداداد سے شاہ صاحب اور ان کے وابستگان کی محبت اور وفاداری کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ ”سرحدی گاندھی‘‘ کی جماعت بھی اب پاکستان کی وفادار تھی۔ 1964ء کے صدارتی انتخاب میں ولی خاں‘ پشتون ایوب خاں کے مقابلے میں قائداعظم کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کے کاروانِ جمہوریت کے سالاروں میں شامل تھے۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد ملک کے دونوں حصوں کے درمیان پیدا ہونے والے سیاسی بحران میں قائداعظم کے پاکستان کو ایک رکھنے کے لیے بھی انہوں نے بساط بھر جدوجہد کی لیکن یحییٰ خاں اور بھٹو کی ملی بھگت کے ساتھ ہونے والے فوجی آپریشن کو وہ روک نہ سکے جو بالآخر بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوا۔ ”نئے پاکستان‘‘ کے استحکام کے لیے بھی ان سے جو کچھ بن پڑا‘کیا۔ 23 مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ عام پر فائرنگ میں جاں بحق ہونے والوں کی بڑی تعداد صوبہ سرحد کے پشتونوں کی تھی۔ بھٹو حکومت کے اس فسطائی اقدام کے خلاف اپوزیشن نے اگلے روز پنڈی میں اجلاس رکھ لیا لیکن ولی خاں نے پشتونوں کی لاشوں کے ساتھ پشاور جانے کا فیصلہ کیا کہ شرپسندوں کو پنجاب کے خلاف نفرت پھیلانے کا موقع نہ ملے۔ پشتون لیڈر کا کہنا تھا‘ یہ لاشیں پنجاب سے آئی ہیں لیکن ان کے قاتل پنجابی نہیں‘ ان کی قاتل فاشسٹ حکومت ہے۔ بھٹو صاحب کے ہاتھوں‘ بلوچستان میں نیپ اور جمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومت کی برطرفی اور لیاقت باغ جلسے پر فائرنگ کے باوجود ولی خاں نے 1973ء کے آئین کو متفقہ بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یاد آیا‘ بلوچستان کے برطرف وزیراعلی سردار عطاء اللہ مینگل ان ہی دنوں لاہور آئے تھے‘ یہاں وکلا کے اجتماع سے خطاب میں ان کا کہنا تھا‘ بھٹو کی ہوسِ اقتدار کے نتیجے میں‘ یہ رہا سہا پاکستان بھی خدانخواستہ ٹوٹ گیا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے۔ بھٹو صاحب نے اس سب کچھ کا صلہ 1974ء میں نیپ پر پابندی اور ولی خاں سمیت اس کی لیڈر شپ کو حیدرآباد ٹربیونل کے سپرد کر کے دیا۔
1993ء میں نوازشریف حکومت کی برطرفی کی مذمت اور مخالفت میں ولی خاں اور ان کی جماعت بھی پیش پیش تھی۔ صدر غلام اسحاق خاں نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں زیرِ علاج ولی خاں کے نام پیغام میں حیرت کا اظہار کیا کہ وہ پشتون صدر کے مقابلے میں پنجابی لیڈر کی حمایت کر رہے ہیں؟ خان کا جواب تھا‘ معاملہ پنجابی‘ پختون کا نہیں‘ پاکستان کی پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کی عملداری کا ہے۔ نومبر 1997ء میں (دوسری بار) وزیراعظم نوازشریف موٹروے کے افتتاح کے لیے روانہ ہوئے تو ان کی گاڑی وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل چلا رہے تھے۔
محمود خاں اچکزئی کے والد بلوچی گاندھی عبدالصمد اچکزئی نے بھی تقسیم کے بعد پاکستان کی سیاست کی۔ محمود خاں کا شمار پختون قوم پرستوں میں ہوتا ہے۔ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون قوم پرستوں میں مخاصمت کی بھی اپنی تاریخ رہی ہے (کبھی یہ ولی خاں کی زیرقیادت نیپ میں شانہ بشانہ بھی تھے) بلوچ قوم پرستوں کی غالب تعداد بھی‘ وفاق سے شکوے شکایات کے باوجود پاکستان کی حامی رہی ہے۔ اکبر بگٹی پر تو ان کے حریف اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگاتے رہے لیکن ڈکٹیٹر کے ہاتھوں بزرگ بلوچ لیڈر کے قتل نے انتہا پسندوں کو ایک ”شہید‘‘ دے دیا۔آج بلوچستان حکومت میں بلوچ اور پختون شانہ بشانہ ہیں۔ نوازشریف نے بلوچوں کی دلداری کے لیے 2013ء میں بننے والی مخلوط حکومت کے پہلے نصف کی سربراہی بلوچ قوم پرست جماعت کو سونپ دی‘حالانکہ اسمبلی میں یہ تیسرے نمبر پر تھی‘ اور مسلم لیگ نون پہلے نمبر پر۔
2 دسمبر کے جلسے میں نوازشریف کوئٹہ (اور بلوچستان) کے شہریوں کو سلام پیش کر رہے تھے جنہوں نے پاکستان کا پرچم سربلند رکھا اور بدترین حالات میں بھی اسے سرنگوں نہ ہونے دیا۔ وہ ان سڑکوں اور شاہراہوں کا بھی ذکر کر رہے تھے جن سے بلوچستان اور دوسرے صوبوں کے درمیان فاصلے سمٹ رہے ہیں۔ میزبان محمود خاں اچکزئی کا کہنا تھا‘ پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے‘ ہم سب کا ملک ہے۔ ہمیں پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ لڑنا ہے۔ بھائیوں میں گلے شکوے ہوتے ہیں جنہیں مل بیٹھ کر طے کر لیا جاتا ہے۔ پُرامن اور جمہوری پاکستان کی جدوجہد میں پشتون‘ نوازشریف کے ساتھ ہیں۔
حیرت ہے‘ قومی یکجہتی کے اس مظاہرے پر اپنے ہاں بعض محب وطنوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اُٹھ رہے ہیں؟