خبرنامہ

’’آزادی‘‘ مارچ کیوں فلاپ ہوا؟…عمار چوہدری

سینسر شپ

’’آزادی‘‘ مارچ کیوں فلاپ ہوا؟…عمار چوہدری

ایک طرف مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے دھرنے کی مکمل نقل کر رہے ہیں‘ اسی انداز میں ترانے بنائے گئے ہیں‘ اسی انداز میں تشہیری مہم چلائی جا رہی ہے اور اسی طرح پلان اے بی اور سی دئیے جا رہے ہیں‘ لیکن دوسری طرف مولانا صاحب کا کہنا ہے کہ ان کی ایک سو چھبیس دن والے دھرنے سے کوئی مماثلت نہیں۔ ان کے اپنے مطالبات ہیں۔ اب جب مطالبات پوچھو تو وہ بھی صاف نہیں بتاتے۔ کبھی کہتے ہیں ؛وزیراعظم کا استعفیٰ لئے بغیر نہیں جائیں گے۔یہ بھی ماضی کے دھرنے میں تحریک انصاف کا ہی مطالبہ تھا‘ جسے مولانا صاحب دُہرا رہے ہیں ۔ کبھی وہ کہتے ہیں؛ عوام کے مسائل بڑھ گئے ہیں‘ معیشت خراب تر ہو رہی ہے‘ تو جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کون سے عوام کی بات کر رہے ہیں‘ جو صرف جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر آپ پورے ملک کے عوام کی بات کر رہے ہیں‘ جو تمام سیاسی جماعتوں اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر مہنگائی اور معاشی مسائل نے عوام کو بدحال کر دیا ہے تو پھر تو پورے ملک سے عوام کو باہر آنا چاہیے اور مولانا کا ساتھ دینا چاہیے‘ پھر تو تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک ہی سٹیج پر ایک ہی پلیٹ فارم پر اور ایک ہی ایجنڈے کے ساتھ مارچ میں شریک ہونا چاہیے تھا‘ لیکن دو بڑی اپوزیشن جماعتیں تو شروع سے ہی جے یو آئی کے ساتھ چلنے سے کترا رہی ہیں۔ کبھی احتجاج کی اخلاقی حمایت کی بات کی جاتی ہے ‘کبھی سیاسی حمایت کی۔کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اس آزادی مارچ کی ہم حمایت کرتے ہیں‘ لیکن احتجاج میں شریک نہیں ہوں گے اور کنٹینر پر آ کر تقریریں کر کے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جے یو آئی و دیگر قیادتوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس طرح دھرنا دینے سے استعفیٰ لینے کی روایت درست نہیں اور یہ روایت ایک مرتبہ پڑ گئی تو پھر کوئی بھی حکومت چند ماہ سے زیادہ نہیں نکال پائے گی اور ہر حکومت کے آنے کے بعد کوئی جماعت اٹھے گی اور دس بیس ہزار افراد لے جا کر اسلام آباد جام کر کے استعفیٰ لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔
جہاں تک جے یو آئی کے دھرنے کی تحریک انصاف کے دھرنے سے مماثلت کی بات ہے اور کچھ جگہ یہ کہہ کر اس دھرنے کو تقویت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس میں تو لوگ بڑے منظم ہیں‘ یہ تو ایمبولینسوں کو راستہ دے رہے ہیں‘ یہ صفائی خود کر رہے ہیں‘ تو تحریک انصاف کے دھرنے میں بھی نظم و ضبط اسی طر ح موجود تھا۔ اصل فرق جو بتانا چاہیے تھا ‘وہ یہ کہ تحریک انصاف کے دھرنے کے مقاصد واضح تھے اور تمام شرکا چاہے وہ کارکن ہوں یا لیڈر میڈیا سے بات کرنے میں آزاد تھے‘ جبکہ موجودہ دھرنے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے رپورٹرز جب بھی جے یو آئی کے شرکا سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جے یو آئی کے سکیورٹی اہلکار انہیں روک دیتے ہیں اور وہاں سے منتشر کر دیتے ہیں۔ یہ پابندی شاید اس رپورٹ کے بعد لگائی گئی‘ جو ایک جواں سال نے دھرنے میں شریک مدرسے کے ایک طالب علم سے بات چیت پر بنائی‘ جس میں انہوں نے پوچھا کہ کہا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں کو دھرنے میں زبردستی لایا جا رہا ہے تو طالب علم نے بے ساختہ جواب دیا جی ہاں۔ جس پر قہقہے گونج اٹھے۔ اسی طرح ایک اور ویڈیو میں شرکا سے پوچھا گیا کہ آپ یہاں کیا مقاصد لے کر آئے ہیں تو اس نے کہا یہ تو ہمیں پتا نہیں‘ لیکن ہم مولاناکیلئے جان بھی دے سکتے ہیں۔ اسی اثنا میں سکیورٹی والے آگئے اور مزید بات چیت سے روک دیا۔ ہم سب نے 2014ء والا دھرنا دیکھا ‘لیکن اس میں ایک بھی شخص کو میڈیا سے بات چیت سے روکا گیا‘ نہ ہی مرضی کا بیان دینے پر مجبور کیا گیا۔سوال یہ ہے کہ یہ کیسا آزادی مارچ ہے جس میں شرکا کو بولنے کی آزادی نہیں ہے۔ اپنا موقف دینے کی آزادی نہیں ہے۔ اپنے مقاصد بتانے کی آزادی نہیں ہے ۔یہ کیسا آزادی مارچ ہے‘ جس میں شرکا کی زباں بندی کر دی گئی ہے۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے اور انہیں محض اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
جمہوریت میں احتجاج کی اجازت ضرور ہے‘ لیکن کم از کم احتجاج کرنے والے کو اپنے احتجاج بارے آگاہی تو ہونی چاہیے۔ اسے پتا تو ہو وہ کس مقصد کے لئے اپنے گھر سے پانچ سو میل دور آ کر بیٹھا ہے۔ کیوں سڑکوں پر دن رات گزار رہا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ آزادی مارچ کے منتظمین کی جماعت میں خود ہی جمہوریت موجود نہیں ہے تو پھر وہ کیسے جمہوریت کانام لے کر احتجاج کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے کارکنوں کی جمہوری آزادی سلب کر کے کیسے خود کو جمہوری سیاستدان کہلوا سکتے ہیں۔
ہم لوگ ابھی تک احتجاج کی اصل روح اور اصل حقیقت بھی نہیں جان سکے۔ لبنان گزشتہ کئی دنوں سے احتجاج کی زد میں ہے‘ جس کے باعث اس کے وزیراعظم تک مستعفی ہو چکے ہیں‘ تاہم یہ احتجاج کسی سیاسی جماعت کے سائے میں نہیں ہو رہا ‘بلکہ عوام جوق در جوق خود اس میں شریک ہو رہے ہیں۔ ان کے مطالبات اور مسائل بھی واضح ہیں اور اسی وجہ سے ان کا احتجاج موثر اور نتیجہ خیز بھی رہا ہے۔ یہاں پر جے یو آئی نے احتجاج کا جو طریقہ اپنا یا ہے‘ وہ سراسر غیر سیاسی اور غیر جمہوری ہے‘ نہ اس کا کوئی سر ہے‘ نہ پیر۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ اس بے تُکے احتجاج کی وجہ سے نقصان کس کا ہو رہا ہے‘ اس کی سکیورٹی اور انتظامات وغیرہ پر پیسہ کس کا لگ رہا ہے؟ کروڑوں روپے ایک ایسے احتجاج کی سکیورٹی پر حکومتی خزانے سے لگانے پڑ رہے ہیں‘ جس احتجاج کی کوئی سمت ہے نہ وجہ۔ مولانا پر ایک بڑا خودکش حملہ ہو چکا ہے۔ ان کی جان کو خطرہ ہے‘ اس لئے ان کی سکیورٹی کے لئے حکومت کو اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں۔ یہی پیسے اگر کسی مثبت ایکٹیویٹی پر لگائے جاتے تو اس سے ہزاروں عوام کو فائدہ ہو جاتا‘ لیکن اب یہی پیسہ محض ذاتی انا اور کسی کی ضد کی بھینٹ چڑھ کر ضائع ہو رہا ہے۔فرض کریں کہ اگر دو چار دن بعد مولانا واپس چلے جاتے ہیں اور نہ وزیراعظم استعفیٰ دیتے ہیں ‘نہ ہی الیکشن جلد کرائے جاتے ہیں تو پھر اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ؟ قوم کا وقت اور قوم کا ٹیکس ایسے غیر ضروری احتجاجوں پر برباد کرنے سے پہلے‘ اگر یہ سیاستدان تھوڑا ہوم ورک کر لیا کریں تو انہیں اندازہ ہو کہ وہ کس طرح سے ملک کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ جب بھی دیکھا ہے ‘مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین دیکھا ہے۔ ہر حکومت کے ساتھ کھڑے دیکھا ہے‘ بیرونی دورے اور سرکاری مراعات کے مزے لوٹتے دیکھا ہے‘ ہمیں احساس ہے کہ جب یہ سب کسی سے یکدم واپس لے لیا جائے‘ تو اسے تکلیف تو ہوتی ہے‘ تاہم کیا کسی شخص کے ذاتی فائدوں کے لئے قوم کے اربوں روپوں اور کشمیر کمیٹی جیسے عہدوں کومزید ضائع کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ مولانا نے اب تک کشمیر کمیٹی کے پلیٹ فارم سے کوئی ایک فائدہ کشمیر کو دلایا ہو تو بتا دیں‘ جبکہ وزیراعظم عمران خان کی سلامتی کونسل میں ایک تقریر نے مسئلہ کشمیر پوری دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔
مولانا کو سمجھنا ہو گا‘ اب وہ دور نہیں کہ جب اللے تللے برداشت کئے جا سکتے ہیں۔ صرف پاکستانی حکومت میں ہی نہیں ‘کسی بھی ملک میں اب غیر ضروری اخراجات اور رسمی عہدوں کی گنجائش موجود نہیں۔ عوام کے مسائل کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانا بھی اب ممکن نہیں رہا ‘کیونکہ عوام بہت سیانے ہو چکے ہیں۔ وگرنہ کوئی تاجر تنظیم کوئی ڈاکٹر کوئی تو مولانا کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوتا۔ یہ اس لئے شریک نہیں ہوئے ‘کیونکہ انہیں علم ہے کہ مولانا عوامی مسائل یا ملکی مفاد کی جنگ نہیں لڑ رہے ‘بلکہ یہ خالصتاً ان کے ذاتی اور جماعتی مفاد کی لڑائی ہے‘ جس کے لیے انہوں نے جڑواں شہروں کے لاکھوں عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ عوام کو یہ بھی معلوم ہے کہ مولانا کبھی بھی اپنی بات سے پھر سکتے ہیں‘ اس لئے آج نون لیگ ‘پیپلزپارٹی سمیت کوئی جماعت ان کے ساتھ عملی طور پر احتجاج میں شریک نہیں ۔ وہ تنہا اور غیر واضح ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بغیر کسی ٹھوس اہداف کے شروع کیا گیا یہ مارچ شروع ہونے سے قبل ہی فلاپ ہو چکا ۔