میں تمہارا دوست بننا چاہتا ہوں! …عمار چودھری
عائشہ گلا لئی کا سکرپٹ کیوں کمزور تھا‘ اس کی کئی وجوہات ہیں۔مثلاً یہ کہ انہوں نے ٹی وی پروگرام میں کہا کہ شام کو پریس کانفرنس میں وہ ایس ایم ایس میڈیا کو دکھائیں گی جو انہیں عمران خان نے بلیک بیری سے کئے۔ پریس کانفرنس میں مگر وہ موبائل دکھانے سے مکر گئیں اور کہا ریکارڈ جا کر پی ٹی اے سے لے لیں۔اگر وہ متاثرہ ہیں تو پھر پی ٹی اے جانا بھی ان کا کام تھا۔ ایک طرف وہ کہتی ہیں عمران خان نے کہا تھا بلیک بیری رکھا کرو اس کے پیغام ٹریس نہیں ہوتے تو پھر جو چیز ٹریس نہیں ہو سکتی ‘ وہ پی ٹی اے کے پاس کیسے ہو گی اور اس طرح کوئی ثبوت نہ آنے پر الزام کیسے ثابت ہو گا۔اسی طرح انہوں نے کہا عمران نے انہیں 2013ء میں ایس ایم ایس کئے‘ جس کیلئے صحافی جا کر عمران خان کا موبائل دیکھ لیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ الزام عمران یا کسی صحافی نے نہیں‘ انہوں نے لگایا ہے اس لئے موبائل بھی انہیں ہی دکھانا چاہیے ۔ دوسرا یہ کہ اگر وہ یہ مقدمہ سائبر کرائم ونگ میں داخل کرتیں اور اس کے بعد پریس کانفرنس کرتیں تو اس کیس کی کریڈیبلیٹی بھی بنتی۔تیسرا یہ کہ اگر چار سال قبل عمران خان نے انہیں پیغام بھیجے تو تب انہوں نے ہراسمنٹ کی آواز بلند کیوں نہ کی اور تب سے اب تک وہ پارٹی سے کیوں چمٹی رہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی اے یا موبائل کمپنیاں چھ ماہ یا ایک سال سے زیادہ کا ریکارڈ نہیں رکھتیں اسی لئے انہوں نے چار سال قبل کا الزام لگا دیا۔اسی طرح عام لوگ بھی ہر دو چار ماہ بعد موبائل فارمیٹ کر دیتے یا نیا لے لیتے ہیں جس سے
سوائے نمبروں کے پرانا ریکارڈ ضائع ہو جاتا ہے۔ چوتھا یہ کہ وہ دوران کانفرنس بار بار نواز شریف کی تعریف کرتی رہیں جبکہ ایک روز قبل پریڈ گرائونڈ میں وہ ”سارا ٹبر چور ہے‘‘ کے نعرے لگا رہی تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے ان میں جو انقلابی ”تبدیلی‘‘ آئی وہ پریڈ گرائونڈ جلسے کے بعد آئی اور اگر اس دوران عمران نے انہیں کوئی ایس ایم ایس کیا تو وہ سامنے کیوں نہیں لاتیں۔ کامران شاہد نے اپنے ٹاک شو میںبتایا کہ وہ پرسوں عمران خان کے انٹرویو کیلئے پہنچے تو انہوں نے دیکھا عمران خان عائشہ گلالئی کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ڈانٹ رہے ہیں۔ غالباًاُسی روز عائشہ ان کے پاس آٹھ لوگوں کا وفد بھی لے کر گئی تھیں تاکہ انہیں این اے ون کا ٹکٹ دیا جائے جبکہ عمران خان نے اسے پارٹی کی کور کمیٹی کے فیصلے سے مشروط کر دیا۔ اس سارے معاملے کی امیر مقام اور ظفر اقبال جھگڑا کو خبر ہوئی تو انہوں نے مبینہ طور پر انہیں نواز لیگ کیلئے استعمال کرنے کا پلان بنالیا ۔ یہ وہ اصل کہانی تھی جس کی بنا پر عائشہ نے پارٹی چھوڑی۔ان سے قبل ناز بلوچ نے بھی پارٹی کو الوداع کہا لیکن انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ہمیشہ خواتین کی عزت کی ہے اور انہوں نے پارٹی کو صرف انتظامی مسائل پر خیرباد کہا۔چنانچہ عائشہ گلا لئی کی پریس کانفرنس ”کھودا پہاڑ ‘نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا‘‘ کے مترادف تھی کیونکہ اس میں انہوں نے ایک بھی ثبوت نہ دکھایا اور اپنے والد گرامی‘ جو ڈائس کے پیچھے چھپے تھے کی ”ضروری ہدایات‘‘ وصول کرتی رہیں۔
عائشہ گلا لئی کو بالکل ٹھیک وقت پر لانچ کیا گیا۔ اس وقت عمران خان کے خلاف نا اہلی فنڈنگ کیس چل رہا ہے‘ نواز شریف نااہل ہو کر گھر بیٹھ چکے ہیں اور مخالفین کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا کہ وہ عمران خان سے بدلہ لینے کیلئے ان کی کردار کشی کرنا شروع کر دیں ۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ اگر دو لوگوں کا مقدمہ عدالت میں لایا جائے تو عدالت سنگین وارداتیں کرنے والے عادی مجرم اور پہلی مرتبہ کوئی چھوٹی موٹی چیز اٹھانے والے کو ایک جیسی سزا نہیں دے سکتی۔ اول تو عمران خان نااہلی کیس میں کچھ ثابت نہیں ہوا اور اگر فنڈنگ میں کوتاہی ثابت ہو بھی جاتی ہے تو عمران خان کو شاید جرمانہ وغیرہ تو ہو جائے‘ لیکن وہ نااہل نہیں ہوں گے کیونکہ انہوں نے اثاثے نہیں چھپائے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز چیف جسٹس ثاقب نثار نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”درست ذرائع سے رقم نہ آئے تو رقم ضبط ہو جائے گی‘ نا اہلی نہیں بنتی‘‘۔ دیکھنے کی بات ہے اگر عائشہ گلا لئی کے پیچھے ن لیگ کا وہی سیل اور وہی مہربان ہیں جنہوں نے پاناما کیس پر وزیراعظم کو ڈٹے رہنے اور اداروں کی دھجیاں اڑانے کے مشورے دئیے تھے اور بالآخر انہیں گھر بھجوانے کی راہ خود ہی ہموار کر دی تھی تو پھر اس نئی کردار کشی کی مہم کا نقصان بھی نواز لیگ اور فائدہ عمران خان کو ہو گا۔ شاید نااہلی کے صدمے کی وجہ سے عائشہ گلالئی کو جلدی میں استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی گئی لیکن بوگس سکرپٹ کی وجہ سے یہ وار بھی خالی گیا اور خان پر جھوٹے الزام لگانے اور ثبوت نہ دینے پر اُلٹا عائشہ گلا لئی کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے مطالبات زور پکڑنے لگے۔ایک سینئر صحافی نے کہا ہے کہ اس کام کے پچاس کروڑ روپے لئے گئے۔ اگر ایسی بات ہے تو اللہ کے فضل سے عمران خان کے مخالفین پچاس کروڑ دے کر اپنی رہی سہی ساکھ برباد کر رہے ہیں کیونکہ اس سے عمران خان کا امیج خراب نہیں بلکہ مزید بہتر ہو گا۔مناسب ہوتا کہ عائشہ گلا لئی یہ سب کرنے سے پہلے اس کے مضمرات کے بارے میں سوچ لیتیں۔ اگر وہ ن لیگ میں جانے والی ہیں اور اگر انہوں نے انہی کے ایما پر یہ سب کچھ کیا ہے تو پھر انہیں اس بات کا اندازہ کرنا چاہیے تھا کہ اگر وہ کسی کے کہنے پر پارٹی چیئرمین پر کیچڑ اچھالیں گی تو اس کا جواب بھی ایسا ہی آئے گا۔ انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا جو ٹویٹ کیا اس میں جو انگریزی استعمال کی گئی اس میں وہ لکھتی ہیں :میں پارٹی چھوڑ رہی ہوں اور آگے لکھتی ہیں کہ اس بارے میں عائشہ گلالئی شام کو پریس کانفرنس کریں گی۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلی لائن انہوں نے خود اور دوسری لائن ان کے والد صاحب نے لکھی جن کی پریس کانفرنس میں عجیب اور مشکوک حرکات بہت سے سوالات اٹھا رہی ہیں۔
ایفی ڈرین کیس فیم حنیف عباسی کا خواتین کی عزت کے حوالے سے بیان بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ۔ اگر وہ خواتین کی عزت کے حوالے سے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو عائشہ گلالئی کو چھوڑیں ‘پہلے عائشہ احد کو دیکھ لیں جو نون لیگ کے ایک ممکنہ وزیراعلیٰ سے برسوں سے انصاف مانگ رہی ہے اور جب بھی ان سے اس سلسلے میں ملنے کی کوشش کرتی ہے‘ اسے گارڈز اور کارکنوں کے ذریعے دھکے مار کر نکال دیا جاتا ہے اور ایسی فوٹیج ہم کئی مرتبہ ٹی وی پر دیکھ بھی چکے ہیں۔اگر وہ عائشہ احد کو انصاف نہیں دلا سکتے تو نواز لیگ کے اگلے ممکنہ وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قریب دو خواتین تنزیلہ اور شازیہ کے لئے ہی آواز ِ حق بلند کردیں جنہیں پولیس نے کیمروں کے سامنے منہ اور پیٹ میں سیدھی گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا ،اگر حنیف عباسی خواتین کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو سامنے لانے کیلئے جدوجہد کریں بصورت دیگر لیگی رہنما عائشہ گلالئی کے دفاع میں جتنا زیادہ سامنے آئیں گے اُتنا ہی یہ تاثر تقویت پکڑے گا کہ اس سارے قضیے کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ وہی سیاسی جماعت ہے جو بینظیر اور نصرت بھٹو کی اسی کی دہائی میں کردار کشی کرتی رہی‘ ان کیخلاف تصاویر چھاپ کر ہوائی جہازوں سے پھینکتی رہی اور اب پاناما کیس میں اپنا وزیراعظم کھونے کے بعد اخلاقی توازن بھی کھو بیٹھی ہے۔
عائشہ گلا لئی عمران خان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تو مجھے ایک سابق وزیراعظم کے غیرملکی صحافی کم بارکر سے تنہائی میں کہے گئے چند خوبصورت جملے یاد آ رہے تھے۔ قارئین کی تفنن طبع اور یاد دہانی کیلئے پیش خدمت ہیں: میری بات سنو… مجھے معلوم ہے کہ میں اتنا لمبے قد والا نہیں جتنا تم پسند کرو…میں اتنا فٹ بھی نہیں… میں موٹا بھی ہوں اور بوڑھا بھی لیکن اس کے باوجود میں تمہارا دوست بننا چاہتا ہو