نیا سال وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے نام کیوں نہ کیا جائے کہ گزشتہ بجٹ میں انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی ایسی چیزوں پر ٹیکس لگائے کہ انسانی عقل دنگ رہ گئی۔ حال ہی میںانہوں نے بچوں کے خشک دودھ‘ دہی‘ ٹوتھ پیسٹ سمیت 313اشیا پردس فیصد ٹیکس عائد کیا۔ میں البتہ جناب اسحاق ڈار کی توجہ چند ایسی اشیا اور سروسز کی طرف دلانا چاہوں گا جو ابھی تک ان کی نظر وںسے اوجھل ہیں‘ ان پر اگر ٹیکس لگ جائے تو ملک کو اربوں کا فائدہ ہو گا اور ایسے لوگ بھی ٹیکس نیٹ میں آ جائیں گے جو شکل سے مسکین نظر آتے ہیں لیکن ڈھیروں پیسہ بنا رہے ہیں۔ ان میں سر فہرست سٹہ یا چھلی بیچنے والے ہیں۔ گمان ہے کہ یہ لوگ سردیوں کا سیزن لگا کر اتنا کما لیتے ہیں کہ گرمیوں میں انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ گرمیاں واپس اپنے ٹھنڈے پہاڑی علاقوں پر جا کر گزارتے ہیں اور شہروں میں رہ کر گرمی اور ہزاروں لاکھوں کے بجلی بل برداشت کرنے سے بھی بچ جاتے ہیں۔ یہ کوئلے کی راکھ سے بھری ایک ریڑھی لے کر صبح نکلتے ہیں۔ اس میں اوسطاً دوسو کے قریب چھلیاں دبائی ہوتی ہیں۔ ہر چھلی بیس روپے کی فروخت ہوتی ہے۔ یہ صرف چھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ صبح دس سے چار بجے تک سڑکوں پر آزادانہ پھرتے ہیں اور کبھی کبھار کسی پولیس یا بلدیہ کو تھوڑا بہت بھتہ دے دیتے ہیں لیکن یہ ٹیکس ریکارڈ میں نہیں آتا۔ سکول کی چھٹی کے دوران ان کا نوے فیصد مال بک جاتا ہے ۔اس طرح یہ روزانہ چار ہزار روپے کی دیہاڑی لگاتے ہیں۔ تیس دنوں میں سوا لاکھ روپے کماتے ہیں۔ لاگت صرف دس سے پندرہ ہزار آتی ہے‘ یوں یہ ایک لاکھ کا خالص منافع کما لیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سردیوں میں پنجاب میں کم از کم پچیس ہزار پٹھان سٹے فروخت کر تے ہیں۔یوں یہ دس کروڑ روزانہ اور تین ارب ماہانہ کماتے ہیں۔ جناب ڈار صاحب! ان چھلی فروشوں کی یہ جرأت کہ یہ تین ارب روپے ماہانہ کمائیں اور آپ کو پتہ بھی نہ چلے؟ صرف چھلی فروش ہی نہیں‘ ریت پر چنے اور مونگ پھلی بیچنے والوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ یہ لوگ بھی گلیوں‘ چوکوں اور چوراہوں میں اپنی دکان بھگائے پھرتے ہیں اور اربوں کما رہے ہیں۔ ایندھن کے طور پر یہ لکڑیاں استعمال کرتے ہیں جو یقینا یہ بازار سے نہیں خریدتے۔ اس طرح ان کی لاگت تقریباً صفر ہوتی ہے۔ دس بیس روپے کے چنے یہ ہر دو منٹ بعد ایک گاہک کو فروخت کرتے ہیں۔ اس حساب سے یہ چھ سو روپے گھنٹہ کماتے ہیں۔ اگر یہ دس گھنٹے کام کریں تو چھ ہزار لے اڑتے ہیں۔ اگر ان کی تعداد بھی صرف صوبہ پنجاب میں پچیس ہزار فرض کی جائے تو یہ پندرہ کروڑ روزانہ یا ساڑھے چار ارب ماہانہ کماتے ہیں ۔ یہ ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں نہ کہیں اور۔ جناب ڈار صاحب! ان چنے بیچنے والوں کی یہ مجال کہ وہ چار چار پانچ پانچ ارب کمائیں اور آپ ان کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں‘یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک اور کاروبار زوروں پر ہے‘ بعض لوگ سڑک کنارے لفافے پکڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان لفافوں میں گوشت کے چند ٹکڑے ہوتے ہیں۔ راہگیر رکتے ہیں‘ ان سے پچاس یا سو روپے کا ایک لفافہ خریدتے ہیں۔ بیچنے والا خریدار کے سر پر سے سات پھیرے لگا کر قریب ہی میدان میں پھینک دیتا ہے ‘ یکا یک چیلیں اور کوے جھپٹ کر یہ گوشت اڑا لے جاتے ہیں‘ یوں ایک منٹ میں یہ شخص ایک سو روپے کما لیتا ہے۔ شنید ہے کہ یہ لوگ سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ یہ بیس بیس تیس تیس کے گروپس کی شکل میں کام کر رہے ہیں۔ یہ جو گوشت لاتے ہیں وہ چیلیں اور کوے ہی کھا سکتے ہیں چنانچہ ان کی لاگت صفر ہوتی ہے۔ یہ بھی آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں اور کم از کم پچاس لفافے بیچ کر جاتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کی تعداد دس ہزار ہو تو یہ روزانہ پانچ کروڑ یا مہینے کا ڈیڑھ ارب کمالیتے ہیں اور جناب عالی! کمال کی بات تو یہ ہے کہ یہ لفافہ انڈسٹری بھی آپ کی ”نظرِ کرم‘‘ سے بچی ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ موچی حضرات بھی جو سڑک کنارے کسی کھمبے یا درخت کے نیچے چھپ کر بیٹھے ہوتے ہیں‘کارپوریشن اور ٹریفک والوں کو چند سو روپے دے کر لمبا مال کماتے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کہنے کو اس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی انتہائی غریب ہے جو کہ کل آبادی کا بارہ کروڑ بنتی ہے۔ ان بارہ کروڑ میں سے چھ کروڑ لوگ مہینے میں ایک مرتبہ ضرور موچی کے پاس جاتے ہیں جو ان سے مرمت کے کم از کم پچاس روپے لیتا ہے۔ اگر چھ کروڑ لوگ مہینے میں ایک مرتبہ جوتا مرمت کرائیں تو یہ تین ارب ماہانہ بنتے ہیں۔ جناب ڈار صاحب! جو لوگ مہینے میں صرف ایک بار جوتا مرمت کرانے کے لئے تین ارب روپے ہوا میں جھونک دیں ‘ کیا کوئی انہیں غریب کہہ سکتا ہے‘ کیا تین ارب ماہانہ کمانے والے موچی حضرات پر زور دار ٹیکس نہیں لگنا چاہیے؟ آپ نان پکوڑے اور لسی جلیبیاں بیچنے والوں کو بھی دیکھ لیں۔ اس ملک کی اکثریت سرکاری و نجی اداروں اور کارخانوں میں ملازمت کرتی ہے۔ زیادہ تر گھر کی بجائے باہر سے کھانا کھاتی ہے۔ اگر ایک شخص ایک وقت میں دو نان اور چنے یا چند پکوڑے لے کر کھائے تو اس کا بل پچاس سے ساٹھ روپے بنتا ہے‘ اگر اس کے ساتھ وہ ایک کپ چائے پئے تو ایک وقت میں وہ باہر سے اکیلا سو روپے کا کھانا کھاتا ہے‘ ملک میں تقریباً دو کروڑ افراد چھوٹی ملازمتیں کرتے ہیں اور ان میں سے آدھے لوگ باہر سے کھانا کھاتے ہیں‘ اس طرح یہ نان پکوڑوں اور لسی جلیبیوں پر کم از کم ایک ارب روپے ماہانہ اڑا دیتے ہیں۔ جناب عالی! یہ کیا بات ہوئی کہ حکومت شیر کی ہو اور نان پکوڑے اور دودھ جلیبی والے اسے چکمہ دے جائیں‘یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ڈار صاحب! اس طرح کے سینکڑوں شعبے ایسے ہیں جو ابھی تک آپ جناب کی نظروں سے اوجھل ہیں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ عوام غربت کا رونا روتے رہتے ہیں۔ آپ خود دیکھیں جو بندہ دس ہزار کماتا ہے اس کے پاس بھی دس ہزار والا موبائل ہے‘ جس کی تنخواہ بیس ہزار ہے‘ اس کے دو بچے چار چار ہزار فیس والے سکول جاتے ہیں‘ اگر یہ لوگ تنخواہ کے برابر موبائل رکھ سکتے ہیں اور آدھی تنخواہ بچوں کی تعلیم پر لگا سکتے ہیں تو یہ غریب کیسے ہوئے اور جناب اس ملک میں اکثریت کی رہائش پانچ مرلے کے پورشنز میں ہے۔ ایک پورشن کا کرایہ پندرہ سے بیس ہزار ماہانہ ہے۔ اگر اوسط تنخواہ بیس ہزار روپے بھی لگائی جائے تو ان لوگوں کو صرف کرایہ اور بچوں کی فیسیں دے کر خالی ہاتھ ہو جانا چاہیے لیکن اس کے باوجود یہی لوگ ہر خوشی تہوار پر باغات اور میلوں پر بھی جاتے ہیں‘ یہ لوگ روزانہ اربوں کے موبائل کارڈز بھی لوڈ کرواتے ہیں ‘یہی نچلے اور متوسط طبقے کے لوگ فیس بک سے بھی چپکے رہتے ہیں اور ہر دوسرے دن میموری کارڈز میں گانے اور فلمیں بھی قیمتاً لوڈ کرواتے ہیں تو پھر یہ غریب کیسے ہوئے؟ رہ گئے بھکاری۔ تو یقین مانئے ہر اندھا‘ لولا اور لنگڑافقیر روزانہ کم از کم دو ہزار کی دیہاڑی لگاتاہے‘ ہر جھونپڑی اور کٹیا کے کسی کونے میں کوئی گڑھا ہو گا جہاں یہ ساری رقم دبائی جاتی ہے‘ یہ سارے لوگ ٹیکس سے بچنے کیلئے آپ کو چکمہ دے رہے ہیں۔ دراصل ملک کی اصل اشرافیہ یہی ہے اور جن لوگوں کے لئے ایف بی آر نے آج سے کالا دھن سفید کرانے کی سکیم شروع کی ہے‘ وہ طبقہ تو پانچ فیصد سے زیادہ نہیں اور دراصل یہی لوگ غریب اور ہمدردی کے لائق ہیں۔ آپ ان چھلی فروشوں‘ موچیوں‘ نائیوں اور نان پکوڑے بیچنے والوں کی تعداد دیکھئے اور ان کی کل آمدنی دیکھئے‘ آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ آپ انہیں عبرت کا نشان بنانے کا پلان بنائیے اور اسی پر بس نہ کیجئے بلکہ پنجاب پولیس کو پورے ملک میں پھیلا دیجئے اور جو لوگ خود کو غریب کہتے ہیں اور ہر دوسرے دن میلوں ٹھیلوں اور موبائل کارڈز پر اربوں اڑا دیتے ہیں ‘ انہیں گھر وںسے کھینچ کر باہر نکالئے اور پولیس کے ذریعے ان کی ایسی مرمت کرائیے کہ یہ خود کو غریب کہنے‘ ٹیکس پر شور مچانے اور بات بات پر حکومت کو کوسنے سے باز آ جائیں‘ آخر ان کی بھی اوورہالنگ ضروری ہے کہ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ نون لیگ عوام کی کس قدر ہمدرد ہے‘ اسے ہر بار ووٹ دے دیتے ہیں‘ ان کی کچھ تو خاطر مدارت ہونی چاہیے