بھڑ کی متعدد اقسام ہوتی ہیں۔ اس میں وہ تمام پردار حشرات شامل ہیں جن کی کمر یا جسم کا نچلا حصہ پتلا ہوتا ہے اور جو گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ نقصان دہ ہوتے ہیں جیسے بھڑ یا تتیا کاٹ لے تو جسم کے اس حصے پر شدید تکلیف ہوتی ہے اور سوجن آجاتی ہے۔
حال ہی میں سائنس دانوں نے امیزون کے بارانی جنگلات میں بھڑ کی ایک نئی اور خوف ناک قسم دریافت کی ہے۔ اس کا ڈنک انتہائی تیزدھار اور مضبوط ہے۔ اس کی مدد سے یہ اپنے شکار کے جسم میں طاقت وَر زہر داخل کرتا ہے اور پھر اس کے جسم کے اندر ہی انڈے دے دیتا ہے۔ گویا اس کی نسل اس کے شکار کے بطن میں پرورش پاتی ہے۔
آپ نے Alien vs Predator سیریز کی فلمیں تو دیکھی ہوں گی۔ ان فلموں میں Alien نامی خلائی مخلوق انسانوں کے منھ کے ذریعے اپنے انڈے ان کے معدے میں منتقل کردیتی ہے۔ ان انڈوں سے بچے نکل کر برق رفتاری سے پرورش پاتے ہیں اور پھر مذکورہ انسان کے معدے کو پھاڑتے اور پسلیاں توڑتے ہوئے باہر نکل آتے ہیں۔ یوں اس انسان کی دردناک موت واقع ہوجاتی ہے۔
بھڑ کی اس نئی قسم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جسے فن لینڈ کی ترکو یونی ورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے۔ محققین کے مطابق بھڑ کی یہ قسم کوہ اینڈس کے پہاڑی سلسلے اور نشیبی بارانی جنگلات کے درمیانی علاقے میں پائی جاتی ہے۔ اپنی مہم کے دوران سائنس دانوں نے بھڑ کی متعدد اقسام دریافت کی ہیں مگر یہ قسم جسے انھوں نے Clistopyga crassicaudata کا سائنسی نام دیا ہے، بقیہ تمام اقسام سے منفرد ہے۔
ترکو یونی ورسٹی میں حیاتیاتی تنوع پر تحقیق کے پروفیسر Ilari E. Sääksjärvi کہتے ہیں کہ بھڑ کی نودریافت شدہ قسم کا ڈنک دوسری تمام اقسام کے مقابلے میں لمبا او ر چوڑا ہے۔ یہ انتہائی مضبوط تیزدھار ہتھیار کے مانند نظر آتا ہے۔ عام طور پر یہ قسم افزائش نسل کے لیے مکڑی کا انتخاب کرتی ہے۔
یہ مکڑی کو بے بس کرنے کے بعد تیزدھار ڈنک کے ذریعے اس کے جسم میں پہلے زہر داخل کرتی ہے، اس کے نتیجے میں مکڑی مفلوج ہوجاتی ہے اور پھر اس کے جسم کے اوپر یا اندر انڈے دے دیتی ہے۔ انڈوں میں سے نکلنے والے لاروے مُردہ مکڑی کو خوراک بناتے رہتے ہیں۔
پروفیسر کے مطابق بھڑ کی اقسام سے تعلق رکھنے والے پردار حشرات جیسے شہد کی مکھی، بھڑ وغیرہ کی مادہ میں زہرکی منتقلی یا انڈے دینے کے لیے ایک ڈنک ضرور ہوتا ہے مگر نودریافت شدہ قسم میں یہ عضو انتہائی خوف ناک ہے۔ سائنس داں ٹیم کے مطابق ابتدائی طور پر وہ اس غیرمعمولی ڈنک کا یہی دو مقاصد جان سکے ہیں یعنی شکار کے جسم کو چیر کر اس میں زہرداخل کرکے اسے مفلوج کردینا اور پھر نسل بڑھانے کے لیے اسی کے جسم میں انڈے دینا۔ تاہم سائنس داں تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر نودریافت شدہ قسم اس ہتھیار سے اور بھی کام لیتی ہوگی۔