تجزیہ:چودھری خادم حسینعوامی تحریک کے چیئرمین پاکستان نثراد کینیڈین پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے دھرنے میں شرکت کی حامی بھری اور فرزند راولپنڈی فضاؤں میں اڑنے لگے ہیں، عمران خان نے تو ’’رشتے‘‘ کی بات کہی تھی بقول ڈاکٹر قادری ان(عمران) کو اس پر معافی مانگنا پڑی ہے لیکن شیخ رشید تو شاید اڑان بھرتے ہوئے اس سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اور فرماتے ہیں، ’’عمران خان نہیں مانتے ، وہ کہیں تو میں حافظ سعید کو لال حویل کے باہر لا کر کھڑا کردوں‘‘ اب ان کے اس فرمان کو کن معنوں میں لیا جائے اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ کیسا محسوس کرتے ہیں یہ تو یحییٰ مجاہد ہی بتاسکتے ہیں لیکن عام لوگوں کو تو اس میں تکبرّ کی بو آ رہی ہے اور ان کی نقل و حرکت اور ایسی باتوں کو کچھ کے کچھ معنی پہنائے جا رہے ہیں، سنجیدہ لوگ تو اب کہتے ہیں کہ یہ شیخ رشید ہی ہیں جو حالات کو ایک خاص نہج پر لئے جا رہے ہیں اور اپنے مخصوص انداز میں کچھ اور ہی تاثر پھیلا رہے ہیں، پھر سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ جی، ایچ،کیو والے غیر جانبدار ہیں، وہ گزشتہ روز لاہور آئے اور یہاں مسلم لیگ (ق) پنجاب کے صدر چودھری پرویز الہٰی سے ملاقات میں دھرنے کے انتظامات پر مشاورت کی، یہاں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ صاحبزادہ حامد رضا سے بھی ملیں گے اور صاحبزادہ ابو الخیر کو بھی دھرنے میں لے آئیں گے، قابل ذکر جماعتوں میں تو خود ان کی اپنی جماعت اور اب مسلم لیگ(ق) ہیں اب وہ سنی تحریک اور سنی اتحاد کو نسل کے ساتھ جمعیت علماء پاکستان کے ایک دھڑے کو ساتھ ملانے کی کوشش اور دعویٰ کررہے ہیں، یہ تنظیمیں پہلے ہی بعض مسائل کے حوالے سے حکومت کی نقاد ہیں لیکن ابھی تک ان کی طرف سے دھرنے کے حوالے سے منفی یا مثبت بات نہیں کی گئی۔کوئٹہ میں ایک کے بعد دوسرا سانحہ ہوا، عوام نے آس لگائی کہ اتنے بڑے المیہ کے بعد شاید کپتان تاریخ تبدیل کردیں لیکن انہوں نے تو سختی سے کہا ہے کہ 2نومبر کا پروگرام حتمی ہے، دھرنا ہو گا اور ضرور ہو گا، وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ (عمران ) جب بھی حتمی پروگرام بناتے ہیں کوئی نہ کوئی سانحہ ہو جاتا ہے ان کا اشارہ پشاور کے ملٹری سکول والے سانحہ کی طرف تھا کہ انہیں اس کی وجہ سے دھرنا ختم کرنا پڑا تھا، اسی تاثر کے حوالے سے تو انہوں نے سیکیورٹی رسک اور مودی کے حمایت فافتہ ہونے کا الزام لگا دیا ہے ، خان نے پیپلز پارٹی کو بھی للگارا ہے کہ ان کے پروگرام سے کہیں پہلے سب کچھ ہو چکا ہوگا، وہ عوام کو اپنی ایسی ہی ٹھوس باتوں سے یقین دہائی کرا رہے ہیں اور یہاں غیر یقینی فضا پیدا ہو رہی ہے اس سے سٹاک ایکسچینج بھی متاثر ہوئی ہے۔کپتان کی ہٹ اور ضد کے ساتھ حتمی بات کرنے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنے پروگرام سے ہٹ جائیں، بظاہر تحریک انصاف کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ فیض آباد موڑ سے زیرو پوائنٹ تک دھرنا ہوگا، اس پر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف یقین دہانی کرادے کہ یہیں تک محدود رہیں گے اور عوام کو پریشان نہیں کریں گے تو اجازت دی جا سکتی ہے، اب معلوم نہیں کہ ایسے بیانات’’مک مکا‘‘ کے باعث ہیں یا دونوں طرف کی اپنی اپنی حکمت عملی ہے، اس سے پہلے جی ۔9کے پارک کی بات کی جارہی تھی لیکن اب تو خود تحریک انصاف کی طرف سے فیض آباد موڑ پر عمران کا کنٹینر کھڑا کرنے کی بات کی گئی ہے۔بہر حال جو بھی ہے میچ شروع ہونا ہی ٹھہر گیا ہے اور کپتان کسی کی سننے پر تیار نہیں ہر سنجیدہ فکر لکھنے والا اپنی رائے مثبت انداز میں دے رہا ہے کہ حالات حاضرہ میں غیر یقینی صورت حال نہ پیدا کی جائے لیکن وہ نہیں مانتے اور احساس ہوتا ہے کہ یہ بھی محترم شیخ رشید ہی کا کارنامہ ہے جن کی لچھے دار گفتگو سے ان کو یقین ہے کہ ’’مداخلت‘‘ ان کے حق میں ہوگی۔یہ بات ایک سے زیادہ بار کہی جاچکی کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف استعفیٰ تو نہیں دیں گے اور آئینی اور قانونی طور پر ان کو ہٹانے کی کوئی صورت نہیں کہ ایوان میں ان کے پاس حلیفوں سمیت دو تہائی اکثریت ہے، پیپلز پارٹی بھی ایسے دباؤ کے تحت اقتدار سے علیحدگی کی حامی نہیں، خورشید شاہ بہت کھلی گفتگو کرتے ہیں، وزیر خزانہ اسحق ڈار، خواجہ سعد رفیق اورمیر حاصل بزنجو پر مشتمل سہ رکنی کمیٹی نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے مذاکرات کئے ہیں، سید خورشید شاہ، چودھری اعتزاز احسن اور قمر زمان کائرہ سے بات چیت ہوئی ہے پیپلز پارٹی کے ان رہنماؤں نے بلاول بھٹو کے چار مطالبات کو مسائل کا حل قرار دیا اور کہا کہ حکومت کو ان مطالبات کے حوالے سے کارروائی شروع کرنا چاہیے، اگر چہ بتایا تو یہ گیا کہ پیپلز پارٹی نے 27۔اکتوبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی اور کہا ہے کہ اس روز تک مطالبات پر عمل شروع نہ ہوا تو پیپلز پارٹی اپنا پروگرام دے گی، یہ سب تو خبر کا حصہ ہے تاہم اندرونی بات وہ ہے جو خود پارٹی رہنما کہتے ہیں کہ کسی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنیں گے اور وہ عمران خان کے دھرنے کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہیں ، یوں بھی اب اکثریتی رائے یہی ہے کہ عمران خان ملک کے اندر فساد پھیلا رہے ہیں، ان کو پھر سے غور کرنا چاہیے اور کچھ نہیں تو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے جو پاناما لیکن کے حوالے سے یکم نومبر کو سماعت شروع کررہی ہے۔