خبرنامہ

بھوت بنگلہ؛ بچے اتنے بھی بے عقل نہیں ہوتے

بھوت بنگلہ؛ بچے اتنے بھی بے عقل نہیں ہوتے
پروفیسر نیاز محمد کہتے ہیں کہ بچپن کے واقعات کا بچوں کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

پروفیسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کو خوا ہ مخواہ جن،بھوت وغیرہ سے نہیں ڈرنا چاہیے، اس طرح بچے کے ذہن میں ایک خوف بیٹھ جاتا ہے جو ساری عمر اس کی شخصیت کا مستقل حصہ بن جاتا ہے اور اس کی شخصیت نا مکمل رہ جاتی ہے ۔ لہٰذا شخصیت کی تعمیراور اعتماد سازی کے لیے ضروری ہے کہ بچے کے ذہن سے ا س طرح کے خوف ختم کردئے جائیں۔

اسی سوچ کے پیشِ نظرپروفیسر صاحب ایک دن اپنے بچوں کو بھوت بنگلہ دکھانے کے لیے لے گئے۔غایت یہی تھی کہ وہ بچوں کے دل سے جنبھوت وغیرہ کا خوف نکالیں اوران پہ یہ حقیقت واضح کریں کہ یہ جن بھوت وغیرہ کچھ نہیں ہوتے۔ یہ محض آدمی ہی ہوتے ہیں جنہوں نے منہ پر ماسک چڑھائے ہوتے ہیں اور یہ بچوں کو ڈراتے ہیں۔ بھوت بنگلہ کا شو شروع ہو اچاہتا تھا۔پروفیسر صاحب نے جلدی سے تین ٹکٹ خریدے،جن میںدو ٹکٹ بچوں کے لیے تھے، جن کی عمریںسات اور نوسال کے لگ بھگ تھیں۔ ان کے پاس بچوں کو بریف کرنے کا وقت ہی نہیں بچا تھا کہ وہ بچوں کو بتاتے کہ یہ جن بھوت محض آدمی ہی ہوتے ہیں جنہوں نے منہ پر ماسک چڑھائے ہوتے ہیں۔اور یہ بچوں کو ڈراتے ہیں۔وہ بھاگم بھاگ بھو ت بنگلہ کے اندر داخل ہو گئے۔
Advertisement

بھوت بنگلہ کیا تھا، ایک بڑا سا کمرہ تھا۔ تماشائیوں سے کچھ فاصلے پر ایک سیاہ رنگ کے پرد ے نے بھو ت بنگلہ کے اس حصے کو ، جس میں بھوت تھے ، ڈھانپ رکھا تھا۔تماشائیوں کواس کالے پردے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔سبھی اس پردے کے ہٹنے کا انتظار کرنے لگے۔یکدم لائٹس آف ہو گئیں۔ اور گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔

پردہ سرکنے لگا…مدھم سی ہلکے نیلے رنگ کی روشنی جل اٹھی۔ا ور بھوت بنگلے کے اندر کا منظردکھائی دینے لگا ۔یہ انتہائی پُرخوف تھا۔دیواروںپر جا بجاکھوپڑیاں لٹکی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔سوکھے درختوں پر اُلو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے۔کچھ ٹہنیوں سے سانپ لٹک رہے تھے۔

بھوت بنگلہ کے ایک کونے میں دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا جہاں ایک بڑا سانپ کنڈلی جمائے بیٹھا تھا۔اس کے عقب سے ایک بھوت نمودار ہوا۔اس کے ماتھے پر ایک آنکھ اضافی تھی جو سائز میں باقی دو سے قدرے بڑی تھی۔ایک دم خوف کی کیفیت طاری ہوئی۔وہ بھوت پھر کنڈلی والے سانپ کے پیچھے دھو ئیں میں اوجھل ہوگیا۔وہ ایسا کرکے خوف میں اضافہ کر رہا تھا۔سبھی لوگ آنکھیں پھاڑے اس کی کھوج کر رہے تھے۔

پروفیسرصاحب اس بھوت بنگلے کے منظر سے خود خوفزدہ ہو گئے اور بچوں کے بارے سوچنے لگے۔ پروفیسر صاحب کو خوف ہونے لگا کہ بچے ڈر نہ جائیں ا ور ساری کی ساری تدبیر الٹ نہ ہو جائے !! اور بجائے خوف ختم ہونے کے، یہ خوف ہمیشہ ان کے دل میں نہ بیٹھ جائے!!وہ اپنی اس غلطی پر بہت پشیمان تھے۔لیکن اب وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔وقت کی کمی نے انہیں موقع ہی نہ دیا تھاکہ وہ بچوں کی ذہن سازی کرلیتے۔

بھوت بنگلے کے اسی کونے سے جس میں دھواں کیا ہوا تھا، بھوت دھو ئیں سے نمودار ہوتا دکھائی دیا۔ ایک درخت کی شاخ سے اس نے ایک سانپ اپنے ہاتھ میں تھاما اورکاندھے پر رکھ کر ٹہلنے لگا۔ وہ کچھ دیر وہاں مختلف انداز سے خوف کا احساس بڑھانے کی تدابیر کرتا رہا۔ وہ دھوئیں سے یکدم نکلا اور بچوں کی طرف منہ سے خوف ناک آواز نکالتے ہوئے جھپٹا۔اس کے اس عمل سے کچھ خواتین کی چیخوں کی آواز وں سے خوف میں اضافہ ہو گیا۔ پروفیسر صاحب بھی بچوں کی وجہ سے سہمے ہوئے تھے کہ اچانک بھوت بنگلہ میں سبھی لوگ اس آواز سے چونک گئے:

’’ماسک چھوڑو !… پھٹ جائے گا۔‘‘

اس آواز کے ساتھ ہی لائٹس آن ہو گئیں۔ پروفیسر صاحب نے دیکھا کہان کے چھوٹے بیٹے نے ’’بھوت ‘‘کا ماسک پکڑ رکھا ہے…اور ’’بھوت‘‘ اس سے چھڑاتے ہوئے اس خوف میںمبتلا ہے کہ کہیںماسک پھٹ نہ جائے,بچے سے درخواست کر رہا ہے:

’’ دیکھو پھٹ جائے گا ،بہت مہنگا ہے۔‘‘

پروفیسر صاحب نے بچے سے ماسک چھوڑنے کو کہااور اس نے چھوڑ دیا۔ انہوں نے بچے سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ؟ ’’بابا،یہ بھوت نہیں ہوتے… آدمی ہوتے ہیں ۔ماسک پہن کر ڈراتے ہیں۔‘‘بچے نے معصومیت سے جواب دیا۔

’’علی !تمہیں ڈر نہیں لگا …؟‘‘ پروفیسر صاحب نے استفسار کیا۔

’’بابا!مجھ سے بھوت ڈر رہا تھا کہ میں اس کا ماسک نہ پھاڑ دوں۔‘‘ بچے نے پھر معصومیت سے جواب دیا۔

پروفیسر صاحب بولے : ’مجھے خود پہ افسوس ہواکہ میں نے بچوں کوانڈر ایسٹی میٹ(Under Estimate)کیا۔بچے اتنے بھی کم عقل نہیں ہوتے جتنا ہم والدین سمجھ رہے ہوتے ہیں۔اوربچوں کی بات کو اس خیال سے نہ سننا کہ یہ تو بچے ہیں،ہم پیرنٹس کی کم عقلی ہے۔بچوں کی باتوں کو نہ صرف توجہ سے سنا جائے، ان کی اچھی باتوں کی تعریف بھی کی جائے،اس طرح ان کے وقار اور اعتماد میں اضافہ ہوگا۔اپنے آئیڈیاز ان پر مسلط نہ کیے جائیںبلکہ انہیں اپنے کھوجنے دیں۔اور جہاں ضرورت محسوس ہو ایک اچھے انداز میں رہنمائی کریں۔اس سے اختلاف ِ رائے کریں اس کے لیول پر جا کر…اس کی اصلاح فرمائیں نہ کہ اس پر اپنے علم اور تجربہ کا بوجھ ڈالیں۔‘‘

اب پروفیسر صاحب کے وہ دوست جو اس واقعہ سے واقف ہیں،جب بھی پروفیسر صاحب کو ستاناچاہتے ہو ں تو وہ پروفیسر صاحب سے ایک ہی فرمائش کرتے ہیں:

’’سر وہ بھوت بنگلے والا واقعہ تو سنائیں؟‘‘

ایسے میں کسی کی آواز آتی ہے: ’’سر دوبارہ کبھی بچو ں کو بھوت بنگلہ د کھایا ؟ان کا ڈر اتارنے کے لیے!‘‘ پروفیسر صاحب کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے:

’’کیوں شرمندہ کرتے ہویار۔۔۔!‘‘

(پروفیسر محمد یاسین ایک بڑے تعلیمی ادارے میں ڈین آف فزکس کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔)

(پروفیسر محمد یاسین)