خبرنامہ

ترک صدر کا یورپی ممالک پر نازی ہونے کا الزام،یورپی رہنماؤں کی ترکی پر شدید تنقید

انقرہ /برلن (ملت + آئی این پی) یورپی ممالک میں ترک حکومت کی جانب سے ریلیاں منعقد کرنے کی کوششوں سے پیدا ہونے والے تنازعات کے دوران یورپی یونین کے کئی رہنماؤں نے ترکی کو شدید تنقید کانشانہ بنایا ہے ، جرمنی اور نیدرلینڈ میں حکام کی جانب سے ریلیوں پر پابندی لگانے پر ترک صدر نے ان ممالک پر نازی ہونے کا الزام لگایا ہے،ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹا نے ان کے بیان کو ناقابل قبول قرار دیا جبکہ جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ ترکی اپنے حواس بحال کر لے گا۔دوسری جانب ڈنمارک کے رہنما نے صدر اردگان سے اپنی طے شدہ ملاقات ملتوی کردی ۔ڈینش وزیر اعظم لارس لوکے راسموسین نے کہا کہ انھیں اس بات پر تشویش ہے کہ ترکی میں ‘جمہوری اقدار شدید دبا میں ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے ملاقات کو اس لیے ملتوی کر دیا ہے کیونکہ اسے ترکی کی جانب سے ہالینڈ پر کی جانے والی تنقید سے علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔یہ ریلیاں یورپی ممالک میں آباد ترکیوں کی کثیر تعداد کو ووٹنگ میں شرکت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے منعقد کی جارہی ہیں تاکہ صدر کے اختیارات میں اضافے کے حق میں ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔بہر حال جرمنی، آسٹریا اور ہالینڈ میں ترکی کی ریلیوں پر سکیورٹی خدشات کے پیش نظر پابندی لگا دی گئی ہے یا یہ کہا گیا ہے کہ اس سے وہاں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔جبکہ فرانس میں مقامی حکام نے کہا کہ اس سے سکیورٹی کا خدشہ نہیں ہے اور وہاں ریلی منعقد کی گئی ہے۔ترکی اور ہالینڈ کے درمیان روابط اس وقت کشیدہ ہو گئے جب سنیچر کو ترکی کے وزرا کو روٹرڈیم میں ریلی سے خطاب کرنے سے روکا گیا جبکہ ان میں سے ایک کو جرمنی کی سرحد تک لے جایا گیا۔صدر اردوغان نے ہالینڈ کو بنانا ریپبلک قرار دیا اور بین الاقوامی اداروں سے ہالینڈ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا اور مغربی ممالک پر اسلام مخالفت کا الزام لگایا۔انھوں نے مزید کہا: میں سوچتا تھا کہ نازی ختم ہو گئے ہیں لیکن میں غلط تھا۔ مغرب میں نازی ازم زندہ ہے۔اتوار کو وزیراعظم روٹا نے ہالینڈ کو فاششٹ نازی کہنے پر صدر اردوغان سے معافی کا مطالبہ کیا۔انھوں نے کہا: دوسری جنگ عظیم کے دوران اس ملک پر نازیوں نے بم برسائے۔ اس طرح کی بات مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ اگر ترکی اپنی حالیہ راہ پر چلتا رہا تو ہالینڈ کو اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا ہوگادریں اثنا جرمنی کے وزرا نے بھی ترکی کے خلاف اپنے بیانات میں سختی ظاہر کی ہے۔ حالانکہ جرمن چانسلر آنگیلا میرکل نے کہا ہے کہ ان کی حکومت پہلے سے باضابطہ اعلان کردہ ریلیوں میں ترکی وزرا کی شمولیت کے خلاف نہیں ہے تاہم ان کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ وہ جرمنی میں ترکی کے سیاسی اجتماعات کے مخالف ہیں۔وزیر داخلہ تھامس دی میزیرے نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: جرمنی میں ترکی مہم کا کوئی کام نہیں۔اس کے علاوہ وزیر مالیات وولف گینگ سکائبولے نے کہا کہ ترکی نے تعاون میں مزید فروغ کی بنیاد کر برباد کر دیا ہے۔دوسری جانب سوئیڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں اتوار کو منعقد کی جانے والی اردوغان نواز ریلی کے ایک مقام کے مالک نے اپنی جگہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس اجتماع میں ترکی کے وزیر زراعت شرکت کرنے والے تھے۔سوئیڈن کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اس فیصلے میں وہ شامل نہیں ہے اور وہ جلسہ کسی دوسری جگہ منعقد کیا جا سکتا ہے۔خیال رہے کہ ترکی میں 16 اپریل کو صدر کے اختیارات میں اضافے کے لیے جو ریفرینڈم منعقد کیا جا رہا ہے اس کے تحت ترکی کو پارلیمانی طرز حکومت کے بجائے امریکہ کی طرح صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔اگر یہ ریفرینڈم کامیاب رہتا ہے تو صدر کو مزید اختیارات حاصل ہو جائیں گے جس کے تحت وہ وزیر نامزد کر سکیں گے، بجٹ تیار کر سکیں گے، سینیئر ججز کی تقرری کر سکیں گے اور بعض قوانین وضع کر سکیں گے۔ اس کے تحت صدر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر سکتے ہیں اور پارلیمان کو برخاست کر سکتے ہیں۔ ریفرینڈم کو کامیاب بنانے کے لیے انھیں اندرون اور بیرون ملک رہنے والے ترکوں کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔خیال رہے کہ 55 لاکھ ترکی بیرون ملک رہتے ہیں جن میں سے 14 لاکھ اہل ووٹرز تو صرف جرمنی میں رہتے ہیں اور ان کی حمایت حاصل کرنا انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔