خبرنامہ

جمالیات کیا ہے ؟

جمالیات کیا ہے ؟

لاہور (ملت آن لائن) کسی شے یا فن کی خوبصورتی کے احساس کو جمالیات کہا جاتا ہے۔ عظیم سائنس دان آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت میں کہا ہے کہ کائنات میں جو کچھ آپ دیکھتے ہیں وہ یقینی نہیں کہ وہی ہو جو آپ دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔ آپ کو وہ شے جو کچھ نظر آرہی ہے وہ آپ کی نگاہ، فاصلے اور زاویے کے علاوہ اور بہت سے ایسے حقائق پر منحصر ہے جن سے آپ ناواقف ہیں یا جن کو ’’نامعلوم عوامل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اکثرسائنس دان اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اس کائنات میں کوئی چیز ’’مکمل‘‘ نہیں۔ نہ کوئی دائرہ مکمل ہے نہ کوئی خط مستقیم۔ شے اصل میں کیا ہے اور کیا نظر آتی ہے۔ یہ ہماری نظروں کے اسے دیکھنے اور محسوس کرنے پر منحصر ہے۔

مثلاً ہم چاند، سورج اور سیاروں کو گول سمجھتے ہیں جب کہ وہ مکمل گول نہیں۔ اسی طرح فطرت میں کوئی شے نہ خوبصورت ہے نہ بدصورت۔ صرف کسی شے کا وجود ہی اصل حقیقت ہے ۔ اسے دیکھ کر آپ کے اندر کون سی حس جاگتی ہے کون سا جذبہ ابھرتا ہے اسی کو ہم خوبصورتی کہتے ہیں۔ انسان ہر چیز کو ’’حواس خمسہ‘‘ سے محسوس کرتا ہے لیکن جمالیات کو حواس خمسہ نہیں بلکہ انسان کی ’’چھٹی حس‘‘ محسوس کرتی ہے۔ پانچوں حِسیں تو ہر انسان میں ہوتی ہیں لیکن چھٹی حس شاید ہر ایک میں نہیں ہوتی۔ یا یہ کہیے کہ زیادہ تر میں اس کی کمی ہوتی ہے کہ وہ خوبصورتی سے سرسری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے خوبصورتی کو محسوس کرنے کا ہر ایک کا معیار اور پیمانہ الگ ہوتا ہے۔ کسی شے کی جمالیات محسوس کرنے کے لیے بینائی اور نظر دونوں کی ضرورت ہے۔ بینائی اور نظر بظاہر ہم معنی الفاظ ہیں لیکن ذرا سا فرق ہے۔

بینائی صرف دیکھنے کی حس کے معنی میں آتی ہے اور نظر اس چیز کی قدروقیمت کو سمجھنے کے معنوں میں آتی ہے۔ نظر ہر شے کی جمالیات کو اپنے طور پر محسوس کرتی ہے۔ مثلاً کسی شخص کو پھول کی خوشبو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ کسی کو رنگ پسند آتا ہے اور کوئی اس پھول کی پنکھڑیوں کی نرمی سے لطف اندوز ہوتاہے۔ حالانکہ یہ تینوں خوبیاں اس پھول کی جمالیات کا حصہ ہیں۔ صرف دیکھنے والے کی نظر کے زاویے اس کی جمالیات کے الگ الگ پہلو بن جاتے ہیں۔ ہالی ووڈ کے مشہور کامیڈین باب ہوپ سے ایک بار اخبار نویسوں نے سوال کیا کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ باب ہوپ نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’میں اداکاری کرتے ہوئے حواس خمسہ سے کبھی کام نہیں لیتا۔‘‘ آدھے منٹ کے وقفے کے بعد وہ بولا۔۔۔ ’’اداکاری کرتے ہوئے میں صرف اپنی چھٹی حس سے کام لیتا ہوں‘‘۔ نفسیات کے ماہرین نے ذہانت کو ناپنے کے لیے پیمانہ بنایا جس کو انٹیلی جنس کوٹیئنٹ یا آئی کیو کہا جاتا ہے۔

ذہانت کے اس پیمانے کے مطابق سو آئی کیو والے انسان نارمل ہوتے ہیں۔ سوسے کم آئی کیو والے کم عقل مانے جاتے ہیں اور سو سے زائد آئی کیو والے ذہین اور عبقری کے درجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک نارمل انسان کسی خوبصورت چیز کو دیکھتا ہے تو وہ اس کی خوبصورتی سے کچھ تو متاثر ہوتا ہے لیکن اس کی جمالیات اسے متاثر نہیں کرتی۔ ایک طرح سے جمالیات کا احساس ایک تخلیقی عمل ہوتا ہے۔ ایک خوبصورت منظر سو آدمی دیکھتے ہیں لیکن ہر دیکھنے والے پر اس کی خوبصورتی کا یکساں اثر نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ منظر کو دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں کیونکہ منظر کی خوبصورتی کی جمالیا ت انہیں متاثر نہیں کرتی۔ کچھ لوگ منظر کی جمالیات میں گم ہو کر مبہوت کھڑے رہ جاتے ہیں۔ یہ بات کسی خوبصورت منظر تک ہی محدود نہیں، بے آب و گیاہ خطہ، ریگستان، سبزے سے بیگانہ پہاڑ اور پتھر۔

ہر شے کی اپنی جمالیات ہوتی ہے۔ جس نے یہ ساری کائنات تخلیق کی اس کی کوئی بھی تخلیق جمالیات سے خالی کیسے ہو سکتی ہے؟ سائنسی نقطہ نظر سے اس کائنات میں کوئی چیز مکمل نہیں خلا اور وقت کے نشیب و فراز کے باعث ہر شے میں کوئی کمی رہ جاتی ہے ۔ یہ کمی بھی خدائے برتر کے فن کا کمال ہے۔ اس نامکمل پن میں بھی محسوس کرنے والے کو جمالیات محسوس ہوجائے گی۔ اس کائنات میں ایک لحاظ سے خوبصورتی اور بدصورتی کوئی چیز نہیں۔ یہ ہماری حس جمالیات کا اثر ہوتا ہے کہ ہم کسی شے کو خوبصورت محسوس کرنے لگتے ہیں اور کسی شے کو بدصورت۔ کوئی ایک چیز کچھ ذہنوں کے لیے خوبصورت ہو سکتی ہے اور کچھ ذہن اس کو بدصورت بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جیسے ایک سیاہ فام عورت جس کے موٹے ہونٹ لٹکے ہوئے ہوں، گردن لمبی ہو۔ سیاہ فام مرد اس عورت کو حسین سمجھے گا۔ لیکن زیادہ امکان ہے کہ دوسری نسل کے لوگوں میں یہ عمومی خیال نہ ہو۔

مشہور مصور لینارڈو داونچی کی مشہور اور شاہکار تخلیق مونا لیزا جمالیات کی بہترین مثال ہے۔ بڑے بڑے فنکار، فلاسفر اور سائنس دان مونا لیزا کی پراسرار مسکراہٹ کی وضاحت کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کی پراسرار مسکراہٹ کا راز ایک معمہ ہے۔یہ تو لینارڈوکے فن کی جمالیات ہے کہ اس نے تصویر کے ہونٹوں کو ایک مستقل پراسرار مسکراہٹ دے دی۔اس مسکراہٹ کی جمالیات یہ ہے کہ اسے واضح طور پر مسکراہٹ نہیں کہا جا سکتا پھر بھی کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح کائنات میں ان گنت اشیا ہیں جو مونالیزا کی مسکراہٹ کی طرح پراسرار ہیں اور ان کی جمالیات کو ہر تخلیقی ذہن اپنے طور پر دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے۔انسان کی ذہن محدود ہے اور اس کی صلاحیتیں بھی محدود ہیں۔ اس لیے محسوسات کو ایک ہی طرح بار بار دہرانے سے جمالیات کی حس پھیکی پڑنے لگتی ہے، جیسے شوخ رنگ کچھ عرصہ کے بعد پھیکے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ انسان کی فطرت ہے کہ کیسی ہی عجیب کیسی ہی خوبصورت یا کیسی ہی پراسرار شے کیوں نہ ہو، مختصر عرصہ میں ہی انسانی ذہن کے لیے وہ اپنی کشش کھو دیتی ہے۔ آپ اپنی پسند کی انتہائی لذید شے صرف چند بار کھا کر اس کے ذائقہ کی جمالیات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایک حد کے بعد وہ ذائقہ اور لذت دونوں کی جمالیات کھو دیتے ہیں۔ ویسے بھی فطرت کا اصول ہے کہ جو شے اپنی حد سے بڑھ جاتی ہے وہ معکوس ہو جاتی ہے۔ اسی لیے شاید غالب نے کہا تھا:
نقش فریادی ہے، کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا۔