خبرنامہ

ماہ صیام کا آفاقی پیغام

اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ ’’سورۃ البقرہ‘‘

امام زین العابدینؓ رمضان کے لیے یہ دعا تعلیم فرماتے: ’’ اے بارِالٰہا اس مہینے کا دامن ہماری عبادتوں سے جو تیرے لیے بجا لائی گئی ہوں بھر دے۔ اور اس کے لمحات کو ہماری اطاعتوں سے سجا دے۔ اور اس کے دنوں میں روزے رکھنے اور اس کی راتوں میں نمازیں پڑھنے، تیرے حضور گڑگڑانے، تیرے سامنے عجز و الحاح کرنے۔ اور تیرے رو بہ رو ذلت و خواری کا مظاہرہ کرنے، ان سب میں ہماری مدد فرما، تاکہ اس کے دن ہمارے خلاف غفلت کی اور اس کی راتیں کوتاہی و تقصیر کی گواہی نہ دیں۔ اے اﷲ تمام مہینوں اور دنوں میں جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ایسا ہی قرار دے۔‘‘

روزہ ان عبادتوں میں سے ہے جس کا حکم تمام مذاہب و اقوام اور ملل و ادیان میں ملتا ہے۔ البتہ ماہ رمضان میں روزہ رکھنا اسلام سے مختص ہے، اس لیے اسے ماہ اسلام گردانا گیا ہے۔ ماہ رمضان کا روزہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے امت محمدی ؐ کو عنایت کردہ عظیم ترین تحفہ ہے تاکہ اس کے ذریعے مسلمان اپنی روح و بدن کو پلیدی اور ہر قسم کی نجاست و کثافت سے منزّا کریں اور اپنے کو زیور تقویٰ سے آراستہ و پیراستہ کریں۔ بھوک و پیاس کے مزے کو چکھیں جس سے فقیروں و غریبوں مسکینوں کی بھوک و پیاس کا احساس اجاگر ہو، تاکہ ان کی حاجت روائی اور فقر و فاقہ سے نجات دلانے کی جدوجہد کرے۔
Advertisement

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ اگر بندگان خدا کو ماہ رمضان کے روزوں کی فضیلت کا علم ہوتا تو آرزو کرتے کہ رمضان پورے سال کا ہو۔‘‘

امت مسلمہ کی عظیم ہستیاں روزے کی شدت کو کس قدر محبوب جانتی تھیں اس کا اندازہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے اس فرمان ذی شان سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں تین چیزوں کو محبوب رکھتا ہوں تلوار کے ساتھ جہاد، مہمان کی عزت اور گرمیوں کے روزے۔

رسول خداؐ کی محبوب دختر خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ ارشاد فرماتی ہیں: ’’ اﷲ تعالی نے روزے کو فرض کیا ہے تاکہ لوگوں میں اخلاص قائم رہ سکے۔‘‘

امام زین العابدینؓ فرماتے ہیں: ’’ہر شب ماہ رمضان میں اﷲ تعالی ستّر ستّر ہزار گناہ گاروں کو آتش جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔‘‘

امام جعفر صادقؓ سے سوال کیا گیا کہ روزے کیوں فرض کیے گئے ہیں ؟ تو آپؓ نے فرمایا تاکہ غنی اور فقیر مساوی ہوجائیں۔ غنی بھوک کا احساس کرکے فقیر پر رحم کرے۔‘‘

اس مہینے کو ماہ رمضان کے نام سے موسوم کرنے کے سلسلے میں مختلف روایات ہیں۔ رمضان رمض سے ماخوذ ہے رمض کے معنی دھوپ کی شدت سے پتھر ریت وغیرہ کے گرم ہونے کے ہیں، اسی لیے جلتی ہوئی زمین کو رمضا کہا جاتا ہے۔ چناں چہ جب پہلی مرتبہ روزے واجب قرار پائے تو ماہ رمضان سخت گرمی میں آیا تھا اور روزوں کی وجہ سے گرمی کی تپش کا احساس بڑھا تو مہینے کا نام ماہ رمضان یعنی ماہ آتش فشاں پڑگیا۔ اس لیے کہ یہ ماہ مبارک گناہوں کو اس طرح جلا دیتا ہے اور فنا و برباد کردیتا ہے جس طرح سورج کی گرمی زمین کی رطوبتوں کو جلاتی ہے اور فنا کردیتی ہے۔ چناں چہ رسالت مآب ؐ کا ارشاد ہے: ’’ ماہ رمضان کو رمضان اس لیے بولا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔‘‘

رمضان، رمضی سے ماخوذ ہے اور رمضی اس ابر باراں کو کہتے ہیں جو موسم گرما کے آخر میں آئے تو اس سے گرمی کی شدت دور ہوجاتی ہے اسی طرح یہ مہینہ گناہوں کو کم اور بدی اور برائیوں کو دھو ڈالتا ہے۔

رمضان، عربوں کے قول’’ رمضت النصل ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دو پتھروں کے درمیان چاقو، تلوار اور نیزے کے پھل کو رکھ کر تیز کرنے کے ہیں۔ کیوں کہ عرب اس ماہ مبارک میں ہتھیاروں کو تیز کیا کرتے تھے۔

رمضان، ارتماض سے ماخوذ ہے جس کے معنی اضطراب و پریشانی کے ہیں۔ چوں کہ اس مہینے میں بھوک و پیاس کی وجہ سے بے چینی اور اضطراب کو محسوس کیا جاتا ہے اس لیے اسے رمضان سے موسوم کیا جاتا ہے۔

ماہ رمضان اپنے فیوض و برکات کی بناء پر تمام مہینوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ چناں چہ پیغمبر اسلامؐؐ کا ارشاد ہے: ’’ تمہاری طرف اﷲ کا مہینہ برکت و رحمت و مغفرت کا پیغام لے کر آرہا ہے، یہ وہ ماہ مبارک ہے جو اﷲ کے نزدیک تمام مہینوں سے افضل ترین ہے۔ اس کے تمام ایام تما م دنوں سے، راتیں تمام راتوں سے اور لمحات تمام لمحات سے بہتر و برتر ہیں۔‘‘

اس مہینے کی راتوں میں شب قدر ہے جسے ہزار مہینوں سے بہتر قراردیا گیا ہے۔ چناں چہ امام جعفر صادقؓ کا فرمان ہے اس رات میں اعمال ان ہزار مہینوں کے اعمال سے بہتر ہیں جن میں شب قدر نہ ہو۔

اسی مہینے میں تمام آسمانی و الہامی کتب کا نزول ہوا۔ اسی مہینے میں قرآن مجید نازل ہوا جو لوگوں کے لیے ہادی و راہ نما ہے اور رشد و ہدایت حق و باطل کے امتیاز کی روشن ترین نشانیاں رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے: ’’ (روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا راہ نما ہے اور اس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور یہ حق و باطل کو الگ الگ کرنے والا ہے۔ تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو، چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے، تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو۔‘‘ (سورہ البقرہ )

دانا کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ ماہ رمضان کو روزوں سے مختص کرنے میں یہ مصلحت بھی ہوسکتی ہے کہ قرآن کی یاد ہمہ وقت تازہ رہے۔

امام محمد باقرؓ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہر چیز کے لیے ایک بہار ہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ہے۔‘‘

امام زین العابدینؓ کی دعا جو ’’صحیفہ کاملہ‘‘ میں درج ہے، میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ پروردگار ماہ رمضان کو ہماری عبادتوں سے سرشار فرما، اور اس کے اوقات کو اپنی عبادت و بندگی کی توفیقات سے مزین فرما اور ہمیں اس مہینے میں خشوع و خضوع تضرع اور تواضع کے ساتھ روزہ رکھنے اور راتوں میں نماز پڑھنے میں ہماری نصرت فرما کہ ماہ رمضان کا کوئی دن ہماری غفلت و کوتاہی اور کوئی رات ہماری تقصیروں کی گواہ و شاہد نہ بن سکے۔‘‘

روزہ یہ ہے کہ ہر بالغ و عاقل انسان خداوند عالم کے فرمان کو انجام دینے کے لیے اذان صبح سے اذان مغرب تک روزہ باطل کرنے والی چیزوں سے اجتناب کرے۔

افطار کے وقت سورہ قدر پڑھنے کی بھی بہت فضیلت و ثواب ہے۔ فرمان ہے جو شخص سحری و افطاری اور ان کے درمیان سورہ القدر کی تلاوت کرے تو اس کے لیے اتنا ثواب ہے جو راہ خدا میں زخم کھائے اور اپنی جان قربان کردے۔

روزے کے دوران صدقہ کرنے بالخصوص وقت افطار بہت ثواب اور اجر ہے۔ روزہ دار کو افطار کرانے بھی بہت اجر ہے۔ امام محمد باقرؓ کا ارشاد ہے کہ روزہ دار کو افطار کرنے کا ثواب نسل اسمٰعیلؑ میں سے ایک بندے کو آزاد کرنے کے برابر ہے۔ بعض روایات میں تیس غلام آزاد کرنے کے برابر اجر قرار دیا گیا۔ اور اس عمل کو دعاؤں کی قبولیت اور گناہوں کی بخشش کا سبب قرار دیا گیا ہے۔

رمضان کی فضیلتوں، برکتوں سعادتوں کا شمار ممکن ہی نہیں لہذا اہل اسلام کو چاہیے کہ جس قدر ممکن ہوسکے اس ماہ مبارک سے رحمتیں برکتیں سمیٹ لیں۔ کیوں کہ شافع محشر رسول خدا ﷺ کا ارشاد ہے : ’’شقی اور بدنصیب ہے وہ شخص جو اس عظیم مہینے میں محروم رہ جائے۔ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس اپنے پروردگار سے سوال کرو کہ وہ دروازے تم پر بند نہ کرے۔ شیاطین کو اس ماہ میں بند کردیا جاتا ہے، پس تم اپنے رب سے سوال کرو کہ شیاطین تم پر مسلط نہ ہوں۔‘‘

اگر امت مسلمہ اخروی مسائل کے ساتھ دنیا میں درپیش مسائل و مشکلات سے بھی نجات چاہتی ہے تو اسے ماہ رمضان کی برکتوں سے اور فیوض کو اس کی روح کے مطابق سمیٹنا ہوگا اور اگر ایسا ہوجائے تو عہد حاضر کا کوئی شیطان و استعمار مسلمانوں پر مسلط نہیں ہوسکتا۔ خداوند عالم امت محمدیؐ کو اس ماہ مقدس کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین