خبرنامہ

موت کے بارے میں عجب تصورات

موت کے بارے میں عجب تصورات

لاہور (ملت آن لائن) موت کا خوف تمام بنی نوع انسان میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ اس خوف کی بنیاد یہ نہیں کہ انسانی عضویہ طوالت کے باعث بتدریج انحطاط پذیر ہو جاتا ہے اور بالآخر ختم ہو جاتا ہے۔ آج کے متمدن دور میں انسان کا رویہ موت کے بارے میں قدیم انسانوں کے رویے سے مختلف ہے۔ آج ہم یہ کہتے ہیں:جو بھی ذی روح اس دنیا میں آتا ہے اسے مرنا ضرور ہے،اور اسے ہر حال میں مرنا ہے۔ یعنی ہم نے موت کو ایک ناقابل تردید حقیقت کی حیثیت سے قبول کیا ہوا ہے۔ لیکن زمانہ قدیم کے انسان نے موت کو ’’ناگزیر حقیقت‘‘ کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس کے نزدیک جسمانی ضعف ،پیرانہ سالی،اور اعضا وجوارح کا انحطاط لازمی طور پر موت کے اسباب نہ تھے۔

وہ اکثر ایسے اشخاص کو دیکھتا تھا جو کہنہ سالی اور شکستہ بدنی کے باوجود رشتہ زیست میں منسلک ہوتے تھے۔اس کے برعکس اس کے مشاہدے میں یہ بات بھی آتی رہتی تھی کہ جوان یابچے بھی بعض حالات میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ چنانچہ زمانہ قدیم کا انسان موت کے کرب اور اذیت سے اتنا خوف زدہ نہ تھا جتنا موت کے پراسرار طور پر غیر یقینی ہونے اور پس ماندگان سے اس کے تمام روابط ٹوٹ جانے اور ان کے غم واندوہ سے تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے موت کوئی پر اسرار اور نادیدہ قوت ہے جو گھات لگائے بیٹھی رہتی ہے اور موقع آنے پر اپنے شکار کو اچک لے جاتی ہے۔ اس نے اپنے طور پر ایک نتیجہ اخذ کر رکھا تھاکہ موت کیوں وقوع پذیر ہوتی ہے اس لیے یہ سوال کہ موت کیسے وقوع پذیر ہوتی ہے، اس کے لئے چنداں اہمیت کا حامل نہ تھا۔

اسے علم تھا کہ سخت سے سخت بیماری سے لوگ جانبر ہو جاتے ہیں، خوف ناک ترین حوادث سے بچ نکلتے ہیں اور بعض لوگ تمام اعضا و جوارح کے ناکارہ ہوجانے کے باوجود سانس کی ڈور سے بندھے رہتے ہیں۔ الغرض اس کے لیے موت کے اسباب و عوامل خاص اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ موت کو ایک کینہ پرور اور ظالم ہستی کی دشمنی کا فعل سمجھتا تھا۔ یہ ہستی اس کے نزدیک نادیدہ اور مافوق الفطرت بھی ہو سکتی ہے اور انسانی بھی جو جادو ٹونے کے ذریعے مہلک امراض مسلط کر سکتی تھی۔

ماہرین عمرانیات نے زمانہ ماقبل تاریخ کے قصوں اور کہانیوں سے جو نتائج اخذ کیے ہیں ان کی رو سے زمانہ قدیم کے لوگوں کے لئے موت انسانی وجود کی ایک لازمی شرط نہ تھی، کسی شخص کی موت خواہ وہ کتنی ہی یقینی اور فطری کیوں نہ ہوتی،وہ اسے کسی مافوق الفطرت قوت کی دشمنی اور عناد کا نتیجہ سمجھتے تھے۔موت کو کسی نادیدہ قوت کی کارستانی سمجھنے کے رجحان نے ہی ان کے اندر یہ نامعقول عقیدہ راسخ کر دیا کہ موت انسانی وجود کی لازمی شرط نہیں ہے چنانچہ وہ موت سے بچنے کی کوشش کرتے، ان کوششوں کے نتائج بعض اوقات نہایت بھیانک ہوتے۔ مثلاً معصوم بچوں اور خوب صورت دوشیزاؤں کو دیوی دیوتاؤں کے قدموں میں ذبح کر دیا جاتا تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکیں۔

زمانہ قدیم کے لوگوں کا خیال تھا کہ انسان پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی، وہ پیدائشی طور پر موت سے آزاد ہے۔ موت دنیا میں اس وجہ سے آئی کہ جو ہرکارہ آسمانوں سے بقائے دوام کا تحفہ لے کر انسانوں کی طرف آرہا تھا یا تو وہ پیغام بھول گیا یا اس پیغام میں تحریف کر دی گئی۔ ناماہو ٹنٹاٹس کا قصہ اس ضمن میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ایک دفعہ چاند نے چوہے کو انسان کی طرف اس لئے بھیجا کہ وہ اسے بقائے دوام کی یقین دہانی کرائے۔ چاند کا پیغام یوں تھا جیسے میں مرتا ہوں اور مرتے ہوئے زندہ رہتا ہوں، اسی طرح تم بھی مرو گے اور مرتے ہوئے زندہ رہو گے۔ لیکن وہ اصل پیغام کو بھول گیا اور انسان کو اس نے یوں پیغام دیا کہ جیسے میں مرتا ہوں اور مرتے ہوئے فنا ہو جاتا ہوں، ویسے ہی تم مرو گے اور مرتے ہوئے فنا ہو جاؤ گے۔

چاند کو جب اس غلط پیغام رسانی کا پتا چلا۔ تو وہ بہت ناراض ہوا اور اس نے خرگوش کے منہ پر ایک طمانچہ مارا جس کے نتیجے میں خرگوش کا منہ آج تک چرا ہوا ہے۔ نیو ساؤتھ ویلز کے اطراف میں بسنے والے قبائل میں بھی اسی طرح کا قصہ عام تھا کہ انسان پیدائشی طور پر موت کے بغیر پیدا ہوا تھا لیکن اسے منع کیا گیا تھا کہ ایک خاص کھوکھلے درخت کے قریب نہ جائیں، اس درخت پر شہد کی مکھیوں نے چھتا لگایا ہوا تھا۔ ایک دن لوگوں کی سرزنش کے باوجود ایک عورت نے کلہاڑے سے ضرب لگائی۔اس درخت پر شہد کی مکھیوں نے چھتا لگایا ہوا تھا۔ عورت نے درخت پر ضرب لگائی تاکہ شہد حاصل کر سکے۔ درخت میں سے ایک عظیم الشان چمگاڈر اڑی۔ یہ چمگاڈر موت تھی جس نے اس دن سے انسانوں کو شکار کرنا شروع کر دیا۔ یہ اور اس طرح کے تمام قصے تقریبا تمام اقوام عالم میں پائے جاتے ہیں۔ جن سے پتا چلتا ہے کہ زمانہ قدیم کے لوگ موت کو وجود انسانی کی لازمی شرط نہیں سمجھتے تھے۔