خبرنامہ

’’میکنک‘‘ بادشاہ

’’میکنک‘‘ بادشاہ
لاہور:(ملت آن لائن) دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کو تاریخ ان کے جاہ و جلال کے حوالے سے جانتی ہے لیکن ایک افریقی بادشاہ نے حکمرانی کے ساتھ مزدوری کر کے دنیا کی توجہ حاصل کر لی۔
اس67 سالہ منفرد حکمران کا شاہی نام ’’ٹوگبی نگوریفیا سیفاس کوسی بانسا‘‘(Togbe Ngoryifia Céphas Kosi Bansah) ہے۔عرف عام میں کنگ سیفاس کہلاتا ہے۔اس کی سلطنت کانام ’’گبی‘‘ ہے جو مشرقی گھانا میں ٹوگو کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ کنگ سیفاس کی سلطنت میں تین لاکھ سے زائد افراد بستے ہیں۔ یہ بادشاہ سلامت محنت مزدوری کے لیے جرمنی میں مقیم ہیں اور وہاں مکینک کا کام کرتے ہیں۔ یہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ واقعی حقیقت ہے کہ کنگ سیفاس نے لڈ وک شیفن کے علاقے میں اپنی ورکشاپ بنارکھی ہے، جہاں وہ دن بھر تیل اور گریس میں لتھڑے رہتے ہیں۔ یہ بادشاہ سلامت سال میں سات آٹھ مرتبہ اپنی سلطنت کا دورہ کرتے ہیں جبکہ باقی دنوں میں سکائپ کے ذریعے حکمرانی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
کنگ سیفاس 1970ء میں اس وقت جرمنی آئے جب ان کے دادا ،کنگ ہوہو نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا۔ جرمنی آکر انہوں نے کچھ تعلیم حاصل کی لیکن انہیں تعلیم سے زیادہ مکینک بننے کا شوق تھا۔ لہٰذا انہوں نے تربیت حاصل کی اور ایک اچھے مکینک بن گئے۔ جرمنی میں قیام کے دوران انہیں شہریت بھی مل گئی اور انہوں نے شادی بھی ایک جرمن خاتون سے کرلی۔
1987ء میں انہیں اپنے وطن سے ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ان کے دادا بادشاہ ہوہو وفات پاگئے ہیں۔ سیفاس کے والد اور بڑے بھائی ان سے پہلے بادشاہت کا حق رکھتے تھے، مگر ایک دلچسپ وجہ کی بنا پر رعایا نے انہیں بادشاہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ دونوں صاحبان دائیں کی بجائے بایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے، جسے گبی سلطنت کے لوگ منحوس سمجھتے ہیں۔ لہٰذا بادشاہت کا قرعہ سیفاس کے نام نکل آیا۔اس فیصلے کے بعد سیفاس اپنے وطن واپس گئے اور انہیں بادشاہت کے منصب پر فائز کردیا گیا۔ وہ بادشاہ تو بن گئے مگر انہوں نے جرمنی میں اپنی ورکشاپ کا کاروبار بھی جاری رکھا اور اب وہ ایک کل وقتی مکینک جبکہ جزوقتی بادشاہ ہیں۔
سیفاس صرف نام کے بادشاہ نہیں بلکہ وہ ایک حقیقی حکمران ہیں اور انہوں نے اپنی قوم کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ وہ یورپی ممالک سے چندہ اکٹھا کرکے اپنی مملکت میں فلاحی کام کرتے ہیں۔ انہوں نے سلطنت گبی میں درجنوں سکول، ہسپتال اور دیگر فلاحی ادارے یورپ سے اکٹھے کیے گئے چندے سے بنائے ہیں۔ ان کی جرمن اہلیہ بھی وقتاً فوقتاً اپنے دو بچوں کے ہمراہ افریقی سلطنت کا دورہ کرتی ہیں۔ کنگ سیفاس کی اہلیہ اور بچے امور سلطنت کی انجام دہی اور خصوصاً فلاحی کاموں میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
کنگ سیفاس اس حوالے سے بھی خوش نصیب ہیں کہ ان کی قوم ان سے بہت پیار کرتی ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ اپنی قوم کو لوٹ کر پیسہ باہر لے جانے کے بجائے یہ بادشاہ باہر سے چندہ اکٹھا کر کے لاتا ہے تا کہ اپنے لوگوں کے لیے ہسپتال اور سکول بنا سکے۔n