خبرنامہ

پکا قلعہ حیدر آباد

پکا قلعہ حیدر آباد
حیدر آباد (ملت آن لائن) قدیم سندھ کے قلعے یوں تو بہت سے ہیں مگر پکا قلعہ حیدر آباد کو ہر دور میں بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس میں بڑی آبادی موجود ہے۔ کسی زمانے میں قلعہ کے گرد ایک مضبوط فصیل بھی تعمیر کی گئی تھی مگر اب یہ جگہ جگہ سے گر چکی ہے۔ قلعے کی عمارت صدر دروازے قلعہ چوک سے شروع ہو کر سٹیشن روڈ، فقیر کاپڑ سے گزر کر واپس صدر دروازے پر ختم ہوتی ہے۔ قلعے کے باہر درگاہ قدم مولا علی ہے یہ زیارت پتھر کی سل ہے جو دراصل قلعے کے اندر موجود تھی جس سے میرصاحبان کے اہل خانہ مشرف بہ زیارت ہوتے تھے۔ لیکن سندھ کے آخری حکمران میر نصیر خان تالپور نے عام لوگوں کے اصرار پر اسے یہاں نصب کروا دیا ۔
یہ سل روایت کے مطابق حضرت علیؓ کے نماز پڑھتے ہوئے ہاتھوں یا پیروں کے نشانات ہیں۔ قلعے میں سٹیڈیم بھی ہے۔ اس قلعے کی زیادہ تر آبادی مہاجروں پر مشتمل ہے جو 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ آہستہ آہستہ قلعہ میں چھوٹی چھوٹی صنعتیں بھی لگتی رہیں۔ چوڑی کے شعبے کے کارخانے اور جوتا سازی کے کارخانے قائم ہوئے۔ یہ قلعہ کسی زمانے میں علمی کتابوں سے مالا مال تھا۔ مگر اب کوئی لائبریری موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اس قلعے میں ممتاز ادیب دانشور اور صاحب دیوان شاعر میر محمد شیر خان بن مراد علی خان، والیٔ حیدر آباد 1804ء میں پیدا ہوئے تھے۔ جو جعفری تخلص رکھتے تھے۔1985ء میں قلعے میں موجود میوزیم کو ختم کر دیا گیا۔ یہ قلعہ ایک طویل تاریخ کا باب ہے جس میں امن و آتش، ادب و تاریخ، تہذیب و تمدن اور صحت معاشرہ کے انمٹ نقوش موجود ہیں۔