خبرنامہ

چھاپہ خانہ:تاریخی پس منظر

چھاپہ خانہ:تاریخی پس منظر
لاہور (ملت آن لائن) چھاپہ خانہ کی ابتدائ۔ چین‘ یورپ اور امریکہ میں انسان کو سائنس کے جدید دور تک پہنچانے میں چھاپہ خانوں نے جس قدر اہم کردار ادا کیا اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا ہے۔ یہ ترقی انسان کی اس جستجو کا حصہ ہے جو اس نے اپنے افکار کو تصویری خاکوں اور لکیروں کے ذریعے آج سے ہزاروں سال قبل دجلہ و فرات اور وادی نیل میں غاروں میں رہتے ہوئے شروع کر دی تھی۔ یوں تو چین میں لکڑی کے ٹھپوں کے ذریعے چھپائی کا آغاز دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں کر دیا تھا مگر گیارھویں صدی عیسوی میں ایک شخص پی شنگ (Pe-Shang) نے حرکت میں لائے جانے والے حروف کو پہلے مٹی میں اور پھر دھات کے ٹائپ حروف میں ڈھال کر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔
ان حروف کی کل تعداد پانچ ہزار مختلف حروف پر مشتمل تھی۔ اس نے ان حروف (ٹائپ) کو حسب ضرورت کتاب کے کسی صفحہ کی چھپائی کیلئے ایک لکڑی کے تختے پر موجودہ کمپوزنگ کے انداز میں جمایا اور ان ٹائپ شدہ حروف پر روشنائی لگا کر ان کو کاغذ پر دبانے کا وہی اصول اختیار کیا جس پر آج تک دنیا کے ہر پریس کی بنیاد قائم ہے۔ اس طرح ایک ایک صفحہ کی چھپائی کر کے اس نے پوری کتاب چھاپ لی۔ پی شنگ کی چھاپی ہوئی کتاب کے طریقہ عمل اور 1456ء میں یورپ کی ایک بائبل کی پرنٹنگ کے طریقے میں اصولاً کوئی فرق نہ تھا لیکن دو ممالک کے درمیان وہی فاصلہ چار سو برس کا ہے۔ پی شنگ کے انتقال کے بعد ٹائپ سے چھپائی کا یہ طریقہ ترک کر دیا گیا اور پھر پرانے طریقہ سے چھپائی ٹھپوں کے ذریعے کی جانے لگی کیونکہ ہزاروں علامتوں کو ڈھالنا اور کمپوز کرنا طویل صبر آزما کام تھا۔
1431ء میں دوبارہ کوریا میں ٹائپ پرنٹنگ کومقبول بنانے کی کوششیں کی گئیں لیکن کچھ عرصے بعد وہ بھی اس کٹھن مرحلے کو خیرآباد کہنے پر مجبور ہو گئے۔ چین نے جب یہ طریقہ طباعت چھوڑا اہل یورپ نے اس کو اپنا لیا کیونکہ کاغذ کی ایجاد کے بعد زیادہ سے زیادہ مواد اور موضوعات اشاعت کے منتظر تھے۔ یورپ میں سامان کی کمی نہ تھی لیکن طباعت میں سست رفتاری کتابوں کی مانگ پوری کرنے سے قاصر تھی۔ ادھر یورپ میں تہذیبی ارتقا کی تحریک روز بروز زور پکڑتی جا رہی تھی۔ یورپ میں چوبی ٹھپوں کے ذریعے چھپائی کی ابتدا یورپ میں نویں صدی عیسوی میں لکڑی یا دھات کے ٹھپے پر بنے ہوئے ڈیزائن سے کپڑوں پر چھپائی کا جو کام شروع ہو گیا تھا‘ اسے کتابوں کی چھپائی میں آزمانے کی کوششیں جاری ہو گئیں۔
اس کا سلسلہ بھی چین سے شروع ہوتا ہے۔ تاہم 1430ء سے پہلے کسی کی طباعت کی ہوئی کتاب کو حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اگرچہ اس طرز کی چھپائی کے چند جزوی نمونے بعض عجائب گھروں میں پائے جاتے ہیں۔ ہالینڈ اور جرمنی میں 1430ء اور اس کے بعد بھی کچھ کتابیں ٹھپوں کے ذریعے چھاپی گئیں۔ اس چھپائی کو زیلوگرافی کہتے ہیں۔ ٹھپوں کی چھپائی کیلئے جو روشنائی استعمال کی جاتی تھی وہ السی کے تیل‘ وارنش اور چراغ کی سیاہی کا محلول بنا کر تیار کی جاتی تھی۔ ان کتابوں پر عبارت کے ساتھ جابجا تصویریں مرقع قلمی کتابوں کی طرز پر چھاپی جاتی تھیں۔ اس زمانے میں جبکہ یورپ میں کتابوں کی چھپائی کا کوئی بہتر طریقہ معلوم کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔
مشہور سیاح اور دوسرے لوگ سیاحت کے واقعات سے اہل یورپ کو باخبر کر رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ سیاح یورپ کو چین کے اس عجیب وغریب حروف ٹائپ کی ڈھلائی کی ایجاد سے باخبر کر رہے تھے۔ تاہم مؤرخین پھر بھی جان گاٹن برگ جو جرمنی کا باشندہ تھا اور پیشے کے لحاظ سے سنار تھا کو یورپ میں حرکت پذیر ٹائپ حروف کا مؤجد قرار دیتے ہیں جبکہ ہاروے وار جے ہمپڈن جیسے مؤرخین نے اپنی کتاب ’’پیپرس سے پشت قرطاس تک‘‘ میں مارکوپولو کے سفر کے نتیجے میں اہل یورپ کو اس سے باخبر کرنے کے بعد چین کو اس ایجاد کا محرک قرار دیا ہے۔