خبرنامہ

ہٹلر کی ذاتی مر سڈیز نیلامی کیلئے پیش کردی گئی

ہٹلر کی ذاتی مر سڈیز نیلامی کیلئے پیش کردی گئی

لاہور: (ملت آن لائن) ہٹلر کے زیر استعمال 1939 کے اس لگژری ماڈل کو نمائش کیلئے پیش کر دیاگیا ہے جو اس دور میں بننے والی چار مر سڈیز ماڈلز میں سے ایک ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس مر سڈیز کو پو رے یو رپ میں سفر کیلئے استعما ل کیا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہٹلر کی اس مر سڈیز نے دنیا بھر کا سفر کیااور مستقل طور پر کسی ایک جگہ نہیں رہی ۔ 1945کے بعد یہ آسٹریا میں رکھی گئی پھر امریکہ میں لاس ویگاس کے میوزیم کی زینت بنی اور آخر میں بر طانیہ میں ایک شخص نے اسے اپنی نادر اشیا میں شا مل کرلیا جسکے بعد2009 میں ایک روسی ارب پتی نے اسے 5 ملین پا ؤنڈ میں اوریجنل کا غذات اور نمبر پلیٹ کیسا تھ خریدا،اب یہ مرسڈیز ایک بار پھر فروخت کیلئے پیش کی جا رہی ہے ۔ جس کی بولی آئندہ مہینے ایریزونا میں لگائی جائے گی۔ جرمنی کے نا زی رہنما ہٹلر کے زیر استعمال ان کی ذاتی مر سڈیز کو نیلامی کیلئے پیش کر دیا گیا ہے جس کی بولی آ ئندہ مہینے ایریزونا میں لگائی جائیگی۔

…………………………………

اس خبر کو بھی پڑھیے…انسان کی آخری رسومات

لاہور (ملت آن لائن) انسان اس دنیا میں چار روزہ حیات ِمستعار کے ساتھ آتا ہے اور اپنی زندگی کے ماہ و سال اور شب و روز پلک جھپک میں گزار کر ملکِ عدم سدھار جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے اپنے انداز سے میت کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ اسلام اور دیگر الہامی مذاہب میں مرنے والے کو دفنانے کا حکم ہے۔ پارسی میت کو مینارِ خموشاں پہ رکھ دیتے ہیں تاکہ گدھ وغیرہ کھالیں۔ ملائیشیا کے ایک جزیرے میں مُردوں کو حنوط کر کے دور افتادہ پہاڑوں پر محفوظ کر دیتے ہیں اور اپنی مخصوص تقریبات پر ان کی ممیوں کو اٹھا کر گھروں میں لاتے ہیں اور رسومات کے خاتمے پہ واپس پہاڑوں پہ رکھ آتے ہیں۔

افریقہ کے کچھ قبائل میت پر خوب جشن مناتے ہیں، ناچ کود کر آخری رسومات ادا کرتے ہیں جبکہ جین، بدھ، سکھ اور ہندو ارتھی کو شمشان گھاٹ لاکر آگ میں جلا دیتے ہیں تاہم جنوبی ہند میں کچھ ہندوئوں کے ہاں دفنانے کا رواج ہے۔ بھارت اور نیپال کے ہندو کھلی فضا میں دریائوں اور نہروں کے کناروں پہ بنے مرکز پہ لکڑیوں کے ڈھیر پہ تیل ڈال کر لاش جلاتے ہیں۔ آگ میت کا بڑا بیٹا لگاتا ہے اور میت کی راکھ کو بھی اولاد دریائے گنگا میں بہا دیتی ہے۔ بعض ہندو راکھ کھلے میدان میں بکھیرتے ہیں تو کچھ دفن کرکے یادگار بھی بناتے ہیں۔ سکھ اس راکھ کو ستلج میں پھینکتے ہیں اور کچھ اس راکھ کو دفنا دیتے ہیں۔ جاپان، فلپائن اور تائیوان وغیرہ میں نوے فیصد لاشوں کو جلایا جاتا ہے اور ہڈیاں ورثاء کے حوالے کی جاتی ہیں۔

چین میں کنفیوشس لوگ مُردوں کو دفناتے ہیں اور صرف بدھ احتراق کرتے ہیں۔ ہندووں کی ستی کی رسمِ بد میں بیوہ بھی مردہ خاوند کے ساتھ زندہ جلائی جاتی ہے تاہم اب قانونی پابندیوں کے باعث یہ رسم ختم ہوتی جارہی ہے اور 1987 ء کے بعد ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ روم اور یونان میں دفنانا اور جلانا دونوں عمل رائج رہے ہیں۔ عیسائیت نے زور پکڑا تو احتراقِ نعش ممنوع قرار پایا۔ جہاں آبادی میں بے تحاشا اضافہ، زندگی میں رہائش اورخوراک کے گمبھیر مسائل کا موجب بنا ہے وہیں اسی کثیر آبادی نے مرنے کے بعد دفنانے کیلئے زمین کی عدم دستیابی کو بھی بہت بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔ اب مرنے کے واسطے بھی جگہ نہیں۔اسی لئے پروٹسٹنٹ فرقے نے لاش کو cremate کرنے کی اجازت دے دی لیکن کیتھولک نے مزاحمت کی۔

دوسری جنگ عظیم میں نازیوں نے ہلاک شد گان کیلئے متعدد بھٹیاں furnaces بنائیں۔ 2004 کے سونامی میں تیس لاکھ اموات ہوئیں لہٰذا تعفن اور آلودگی کی وجہ سے کئی مقامات پر اجتماعی احتراقِ نعش کیا گیا۔ اب آسٹریلیا میں بھی جدید بھٹیاں بنائی جا رہی ہیں جبکہ یورپین ممالک اور امریکہ میں بے شمارجدید قسم کے cremation centres بنائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی شمشان گھاٹ ہیں جہاں ہندو ارتھی جلاتے ہیں البتہ بیس فیصد ہندو میتوں کو دفناتے بھی ہیں۔ عرب ممالک خاص کر سعودیہ میں عارضی قبروں میں میت دفنائی جاتی ہے ۔ کیمیکل کے باعث لاش ڈی کمپوز ہونے پہ باقیات سمندر برد کر دی جاتی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر اسلام کے علاوہ تمام مذاہب میں کسی حد تک cremation کو قبول کرنے کا رجحان نظر آرہا ہے۔ مختلف ممالک میں سینکڑوں modern cremation centreبن رہے ہیں جن میں روایتی شمشان گھاٹ کی طرح دھواں اور آلودگی نہیں ہوتی۔ یہاں لکڑی کی بجائے گیس، تیل، پروپین اور کول گیس استعمال کی جاتی ہے۔ میت کو تابوت casket میں ڈال کر فرنس میں بند کر کے آٹھ سو سے گیارہ سو سینٹی گریڈ کے ٹمپریچر پہ جلایا جاتا ہے۔ گوشت اور عضلات راکھ ہو جاتے ہیں اور بچنے والی ہڈیوں کو گرائنڈر میں مزید پراسیس کرتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک باڈی ہی کریمیٹ کی جاتی ہے۔

یہ عمل ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے اور راکھ ایک urn میں ڈال کر ورثاء کو دی جاتی ہے۔ اس راکھ میں کیلشیم، فاسفورس، منرلز اور سلفر کے عناصر ہوتے ہیں لہٰذا کچھ اسے بطور فرٹیلائیزر بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ ہندو ازم میں شمشان کی بابت متعدد دلائل ہیں۔ کہتے ہیں کہ جسم تکبر اور انا کی علامت ہے، یہ روح کو مائل بہ گناہ کرتا ہے، یہ ظالم ہے اس لئے اس کا تعلق جلد از جلد روح سے توڑنا ضروری ہے تاکہ روح اپنی اصل تک جلد پہنچ کر امن پا سکے۔ ان کے مطابق زمین میں دفن کرنے سے روح اور مرنے والے کا روحانی ناطہ دیر تک قائم رہتا ہے جس سے رو ح بے چین رہتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہندوازم میں عقیدہ آواگون کے مطابق اس دنیا کا جسم اگلے جنم میں دوبارہ نہیں ملے گا بلکہ اعمال کے حساب سے مختلف ہوگا لہٰذا اسے محفوظ کرنے کی ضرورت نہ ہے، جبکہ اسلام اور الہامی مذاہب میں یہ جسم دوبارہ ملنے کا عقیدہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آبادی میں اضافہ اور شدید آلودگی پوری دنیا کو احتراق نعش یا شمشان پر مجبور کردے گی۔ صد شکر کہ مسلمانوں کو عزت وتکریم کے ساتھ دفنا دیا جاتا ہے بلکہ اس ضمن میں تو ہم اور بھی حساس واقع ہوئے ہیں۔