خبرنامہ بلوچستان

بلوچستان کا بحران، جمہوری اور ملکی سیاست پر منفی اثرات

بلوچستان کا بحران، جمہوری اور ملکی سیاست پر منفی اثرات

لاہور: (ملت آن لائن) بلوچستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑے جانے کے باوجود صوبہ کو سیاسی طور پر غیرمستحکم کرنا ایک بالکل کھلا اور طاقت کی سیاست کا کھیل لگتا ہے اس کھیل کے پیچھے کئی درپردہ قوتیں کارفرما ہیں لیکن ظاہری طور پر اس وقت جو لوگ بلوچستان حکومت کو غیرمستحکم کرنے میں پیش پیش ہیں، ان میں جے یو آئی، مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلزپارٹی قابل ذکر ہیں، یہ تینوں دھڑے ہیں اور جو لوگ ان میں شامل ہیں وہ کوئی نظریاتی لوگ نہیں، وہ پارٹیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں، یہ ایک بڑی پاور گیم ہے جس کے ملکی سیاست پر منفی اثرات پڑے ہیں۔
اگر اسمبلی میں کوئی بھی پارٹی اپنی اکثریت نہیں رکھتی تو ظاہر ہے وہاں پر گورنر راج لگانا پڑے گا، اسمبلی کو تحلیل ہونا پڑے گا، ہو سکتا ہے حکومت اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن اگر وہ کامیاب نہیں ہوتی تو ظاہر ہے دوسرا گروہ جو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئے گا اس کو بھی موقع دیا جائیگا کہ وہ حکومت بنائے۔ یہ حکومت چھ یا سات مہینے کیلئے ہوگی لیکن اگر بلوچستان کی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو اس سے جمہوریت کو بھی اور بلوچستان میں اداروں کی تعمیر کو کافی نقصان پہنچے گا۔ بلوچستان کا بحران اچانک سامنے آیا ہے، مجھے مکمل معلومات نہیں کہ بلوچستان حکومت کے خلاف کیا شکایات ہیں تا ہم میں تقریباً دو ہفتے پہلے بلوچستان گیا تھا، کچھ لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، بلوچستان میں کرپشن پہلے تھی اور اب بھی ہے۔
یہ کرپشن ایسے علاقے میں ہے جہاں پر غربت ہے، بیماری ہے، افلاس ہے، تعلیم کی کمی ہے، صحت کی کمی ہے، وہاں پر ایسا لگتا ہے کہ صرف قبائلی سردار ہیں اور ان کاراج ہے۔ سب کچھ ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ ہم جنوبی پنجاب میں بھی یہی کچھ دیکھتے ہیں اور اندرون سندھ میں بھی ایسا ہی ہے، جہاں جہاں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام ہے وہاں پر حکومت کے ادارے کمزور ہیں وہ اپنی ساکھ پیدا نہیں کر سکے اور اپنے آپ کو وسعت نہیں دے سکے۔ بلوچستان میں یہ معاملہ انتہا پر ہے جہاں ریاستی ادارے بہت ہی کمزور ہیں۔