خبرنامہ بلوچستان

وزیراعظم سمیت ان کے اتحادیوں محمود اچکزئی اور مولانافضل الرحمن سے ضرور سوال کیاجائیگا

کوئٹہ (ملت + آئی این پی) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی نے کہاہے کہ پشتونوں کے ساتھ من حیث القوم روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک ،مظالم اور حق تلفیوں بارے موجودہ وزیراعظم سمیت ان کے اتحادیوں پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمن سے ضرور سوال کیاجائیگا ،طورخم اور چمن پر 1947سے اب تک ایسے حالات ہم نے کبھی نہیں دیکھے ،پشتون قوم کے ساتھ شناختی کارڈز ،دہشت گردی اور انتہاپسندی سمیت مختلف ناموں پر بدترین رویہ رکھاجارہاہے بلکہ اس سے سی پیک سے ملنے والے حصے سے بھی محروم کردیاگیاہے ۔ان خیالات کااظہارانہوں نے جمعہ کویہاں کوئٹہ پریس کلب میں عوامی نیشنل پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈرا نجینئر زمرک خان اچکزئی ،صوبائی سیکرٹری اطلاعات مابت کاکا ودیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔اصغرخان اچکزئی نے کہاکہ ایسے حالات میں جب ہر کسی کی زبان پر یہ بات ہے کہ امن وامان کی صورتحال ٹھیک نہیں بلکہ ہر حوالے سے مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ،ہر شہری خود کو غیر محفوظ سمجھتاہے ،انہوں نے کہاکہ کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں دفعہ 144کانفاذ کردیاگیا تھا تاہم ان مشکل حالات کے باوجود بھی اے این پی نے غیور اولس کے تعاون سے انتہائی کامیاب شٹرڈاؤن ہڑتال کیا اورصوبے بھر میں بھرپوراحتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ،اصغرخان اچکزئی نے سندھ اورپنجاب میں پشتونوں کے ساتھ روا رکھے جانیوالے ناروا سلوک اور سی پیک کے مغربی روٹ پر کام شروع نہ کرنے اور دیگر کے متعلق پارٹی کی جانب سے کامیاب شٹرڈاؤن ہڑتال پر عوام ،سیاسی ومذہبی جماعتوں اور تاجر برادری اور عوامی نیشنل پارٹی ،پی ایس ایف ،نیشنل یوتھ آرگنائزیشن ودیگر کا خصوصی شکریہ اداکیا اور کہاکہ کامیاب ہڑتال اور صوبے بھر میں بھرپور احتجاجی مظاہرے ان عناصر کے خلاف ریفرنڈم ہے جو پشتون قوم کیساتھ ناروا اورامتیازی سلوک اور استحصالی رویہ اپنائے ہوئے ہیں ،انتہا ء پسندی اور دہشت گرد ی کسی بھی شکل میں ہو کی ہم نے روز اول سے ہی مخالفت کی ہے بلکہ مستقبل میں بھی اس کی مخالفت اور مذمت کرتے رہیں گے کیونکہ ہم خود اس کے شکار رہے ہیں ،اقوام اور قومیتوں کی بنیاد پر دہشت گردی کی بات کی جائے تو پشتونوں سے زیادہ شاہد ہی کوئی قوم متاثر ہواہو ،دہشت گردی اورانتہاپسندی کسی بھی قوم ،مذہب ،شہر اورخطے میں ہو کی ہم نے ہمیشہ سے ہی پرزورمذمت کی ہے ۔دہشت گردی اورانتہاپسندی کا جس انداز سے اے این پی کے قائدین اور کارکنوں نے مقابلہ کیاہے تاریخ میں اس کی شائد ہی کوئی نظیر ہو ،گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے سے ملک میں دہشت گردی کی جو لہر گزری ،لاہور اورسہیون شریف دوسرے شہروں اور علاقوں میں جو کچھ ہوا کونفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ ہر معصوم شخص کی قتل کی مذمت بھی کرتے ہیں مذکورہ افسوسناک واقعات کے بعد اس سے پشتون قوم سے جوڑنے کا تاثر دیاگیا ،سندھ پنجاب حتیٰ کے بلوچستان میں بھی داڑھی اورپگڑی رکھنے والے پشتونوں کو فورسز کی جانب سے گرفتارکرکے حراساں کیاجارہاہے بلکہ ان سے رقوم لیکر کاروبار شروع کردیاگیاہے ،اس سے ہم تضحیک آمیز اور غلط رویہ سمجھتے ہیں ،دہائیوں سے سندھ پنجاب اور بلوچستان میں خون پسینے کی کمائی سے کاروبار بنانے والوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاگیاہے اورضمانت لینے کی کوشش کی جارہی ہے اورساتھ ہی خلیجی ممالک کے طرز پر انہیں کفیل رکھنے پر بھی مجبور کیاجارہاہے پشتون جس بھی پنجاب اور سندھ کا رخ کرتاہے تو اس سے متعلقہ تھانے میں رپورٹ کرنے کا کہاجاتاہے ،بتایاجائے کہ دنیا کے کسی اور ملک میں بھی اپنے شہریوں کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل اپنایاجاتاہے ؟وہ بھی اس قوم کے ساتھ جودہشت گردی اورانتہاپسندی سے سب سے زیادہ متاثر ہواہوکب تک لوگوں کو غلط راہ پر ڈال کر اپنوں اور دنیا کو دھوکہ دیتے رہیں گے ،پوچھنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کے مراکز کہاں پر ہے اس کے ماسٹر مائنڈ کہاں ہے ؟دنیا کو مطلوب دہشت گرد کون اور کہاں ہے ؟سب جاننے کے باوجود بھی پشتونوں کو ہی ٹارگٹ کرنا انتہائی نامناسب رویہ ہے ،لاہور اور سہیون کے افسوسناک واقعات کے بعد پشتونوں کے کاروبار پر وار کیاگیا ان کے معاشی قتل کے منصوبے بنائے گئے بلکہ طورخم اور چمن بارڈر جس سے 80فیصد پشتونوں کا روزگار وابستہ کو سیل کردیاگیاہے ،تاثر دیاجارہاہے کہ دہشت گردافغانستان سے آکر یہاں حملے کرتے ہیں اور ان کے پیچھے بھارت کاسپورٹ ہے اگر بلفرض افغانستان کا کردار سہولت کار کا ہے تو پھر براہ راست دشمن کے ساتھ واہگہ بارڈر کیوں بند نہیں کیاجارہا،بھارت کے ساتھ کاروبار کے متعلق نہ صرف ہم جانتے ہیں بلکہ سب دیکھ بھی رہے ہیں ،ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا کسی کے گھر اور ملک کو تباہ کرنے کیلئے دشمن عام شاہراہوں کااستعمال کرتاہے ؟کیا طورخم اورچمن ہی کے راستوں سے دشمن یہاں آرہاہے یہ قطعاََ غلط تاثر ہے ،ہم اس سے ملکی عوام کے درمیان بداعتمادی کوفروغ دینے کی کوشش سمجھتے ہیں ،تخت لاہور اور پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے جس طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں اس کے مستقبل میں بہت ہی بھیانک نتائج برآمد ہونگے ،ہمیں بحیثیت قوم تاثر دیاجارہاہے کہ آپ کے شناختی کارڈ پر پابندی ہے ،1947سے قبل یہاں رہنے والوں سے بھی نادرا آفس میں بے شمار ثبوت طلب کئے جاتے ہیں ،تجارت ہمارے لئے شجرممنوعہ بنادیاگیاہے ،اپنے ملک اور علاقے میں ہمارے لئے آنا جانا ممنوع بنادیاگیاہے ،ہمیں دہشت گرد اورانتہا پسند سمجھنے والے بتائے کہ ہمارے لئے اور کونسا راستہ بچاہے ،ملک میں مزید غلط فہمیاں ہم کسی طورنہیں چاہتے ،بلوچوں کو دیوار سے لگا دیاگیاہے بلکہ سندھیوں کے متعلق بھی نااہلی کاتاثر دیاگیاہے بلکہ پشتونوں کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے نام پر اس راستے کی جانب لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے کیا پاکستان کامطلب صرف پنجاب ہے ؟سندھ ،پشتونخوا اور بلوچستان میں رہنے والے پاکستانی نہیں کیا ان کیلئے آزادانہ نقل وحمل اور کاروبار کرنا جائز نہیں ،دہشت گردی کے خلاف پوری قومی قیادت نے مل کرنیشنل ایکشن پلان مرتب کیا بتایاجائے کہ اس پرعملدرآمد کیوں نہیں ہورہا؟نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد ممکن بنایاجائے تو اس ملک میں دہشت گردی کا نام ونشان تک نہیں رہے گا،قوانین بنائے جاتے ہیں پر ان پرعملدرآمد نہیں ہوتادنیا اب بھی ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے ،آج بھی لوگوں کو ہم سے بہت سے گلے شکوے ہیں ،دہشت گردی کے واقعات کاالزام دوسروں کو دینے سے پہلے ہمیں اپنے معاملات کو دیکھنا چاہئے کہ یہاں کیا ہورہاہے ؟کسی بات پر کسی کو غدار کہنے سے بہتر ہے اس بات پر توجہ دی جائے ،آج کا دوست کل دشمن اور کل کا دشمن آج دوست ہوسکتاہے لیکن ہمسائے تبدیل نہیں کئے جاسکتے ،مملکتوں کے ساتھ 100سال سے رہ رہے ہیں تو ہزار سال ہمیں مزید رہناہوگا،پھر کیوں بااعتماد اور بامقصد مذاکرات کی راہ نہیں اپنائی جاتی ،کیوں افغانستان پاکستان کے دشمن کو اپنا دشمن نہ سمجھے اورکیوں پاکستان افغانستان کے دشمن کو اپنا دشمن نہ سمجھے ؟جب تک پاکستان کے لوگ افغانستان کو برباد کرنے والوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھیں گے اور افغانستان کے لوگ پاکستان میں بربادی کرنیوالوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھیں گے ،اس وقت تک مسائل حل نہیں ہونگے درمیان میں لاشیں عوام ہی اٹھائینگے بلکہ تجارت اور رشتے بھی ختم ہونگے ،مزید بربادی سے قبل ہمیں مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا، بامقصدپر اعتماد مذاکرات کاآغاز سب کے مفاد میں ہے ،انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ اس وقت بھی 80ہزار سے زائد پشتونوں کے شناختی کارڈ ز بلا ک کئے گئے ہیں ،80ہزار افراد کے شناختی کارڈ فوری طور پر جاری کرنے کامطالبہ کرتے ہیں ،نادرا کو تمام تر دستاوزات فراہم کرنے کے باوجود بھی لوگوں کو شناختی کارڈ سے محروم رکھاجارہاہے جس کی وجہ سے پشتونوں کوسندھ اورپنجاب میں مشکلات کاسامناہے ،صوبوں اور مرکز میں پشتونوں کو حراساں کئے جانے کے مسئلے پر اے این پی کے منتخب نمائندے تحریک التواء اور قرارداد پیش کرچکے ہیں ،ایک سوال کے جواب میں اصغرخان اچکزئی کاکہناتھاکہ ہم نہیں بلکہ دنیا سوال کررہی ہے کہ دہشت گرد کہاں پنپ رہے ہیں اور دنیا کو وانٹڈ لو گ کہاں ہے ؟یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ،ہمارے قائد عبدالولی خان نے تو 1980کے دہائی سے قبل ہی کہہ دیاتھاکہ یہ آگ جب اٹک کو پار کریگا تو پھر گلے پڑ جائیگا ،انہوں نے کہاکہ خدارا یہاں مراکز اور ذہن سازی کا سلسلہ ترک کیاجائے لیکن ایسا نہیں کیاگیا اس لئے وہ آج ہمارے اپنے گلے پڑ چکے ہیں ،دنیا کی تمام قومیں آزاد اورخودمختار ہے اور ہم بدقسمت آج تک ملک وقوم کی خاطر پالیسیاں نہیں بنا سکے ہیں ،واقعات افغانستان میں ہوئے لیکن امریکی جنگ کو ہم نے اپنے گلے لے لیا افغانی ایران میں بھی مقیم رہے لیکن وہاں ایسا طرز عمل نہیں اپنایاگیا جس طرح ہم نے اپنایاہے ،کیا دنیا کے ممالک دوسروں کے جنگ کو اس طرح اپنے سر لیتے ہیں جس طرح ہم نے لیایہ ہماری ناکام پالیسیوں کا مظہر ہے افغانستان میں دنیا کو مطلوب درجنوں لوگ مارے جاچکے ہیں جن کے ہم نام بھی بتاسکتے ہیں لیکن بتایاجائے کہ افغانستان کو مطلوب کسی ایک بھی شخص کو یہاں ٹارگٹ کیاگیاہے ،ایمانداری اور اخلاص دونوں طرف ہوناچاہئے ،سب مانتے بھی ہیں کہ افغانستان کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ بیک جنبش قلم سب مجرموں اور دہشت گردوں کے سر قلم کردیں ،ہم تو ہر جگہ تک رسائی رکھتے ہیں پھر یہاں کیسے یہ حالات پیدا ہوگئے ہیں ایک سوال کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ ہم تیار ہیں اور ایک وقت آئیگا کہ جب پشتون متحد ہوکر اپنے کو درپیش مسائل کیلئے جدوجہد کرینگے لیکن ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ پشتون اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزررہے ہیں طورخم اورچمن پر جس طرح کے حالات ہے یہ 1947سے آج تک ہم نے کبھی نہیں دیکھے پشتونوں کو شناختی کارڈ کے مسئلے پر تنگ کیاجاتاہے بلکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی آڑمیں پشتونوں کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے وہ سب کے سامنے ہیں ،سی پیک سے ہمیں خوشحالی اوراپنا حصہ ملنے کی امید تھی مگر اس کا بھی روٹ تبدیل کردیاگیاہے اس سلسلے میں وزیراعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف سمیت ان کے اتحادیوں پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمودخان اچکزئی اورجمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمن سے بھی ضرورت سوال ہونگے ۔