خبرنامہ بلوچستان

پردے کے پیچھے کارروائیاں بلوچستان بحران کی طرف اشارہ

پردے کے پیچھے

پردے کے پیچھے کارروائیاں بلوچستان بحران کی طرف اشارہ

لاہور: (ملت آن لائن) دورہ سعودی عرب سے واپسی پر سابق وزیراعظم نوازشریف کی دھواں دار بریفنگ، صدر ٹرمپ کی ٹویٹ پر جارحانہ تبصرہ کے ساتھ اٹھائے جانے والے بعض نکات اور خصوصاً اپنے سینے میں پڑے راز کا ذکر کر کے ایک نئی صورتحال طاری کر دی اور سوال یہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ آخر سابق وزیراعظم نواز شریف کا طرز عمل جارحانہ کیوں ہے؟ وہ پس پردہ کارروائیاں کونسی ہیں جن کے ثبوت لانے کی انہوں نے بات کی؟ کون کس کا لاڈلہ ہے؟ سابق وزیراعظم نوازشریف کی پریس کانفرنس کا بنیادی مقصد تو صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کا جواب تھا جس میں انہوں نے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے کہا کہ ایسی پالیسی وضع کی جائے کہ ہم امریکی امداد سے نکل سکیں، سابق وزیراعظم کا یہ بیان نہایت حقیقت پسندانہ اور جرأت مندانہ ہے اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا یہی کہنا بنتا ہے۔

حقیقت یہی ہے جس کا اظہار خود امریکہ کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنی کتاب میں کیا کہ امریکہ کی دشمنی خطرناک ہے لیکن دوستی اس سے بھی زیادہ خطرناک۔ یہ اتفاق رائے قوم کے اندر پیدا ہو گیا ہے کہ جس امریکہ کیلئے ہم مرے جا رہے تھے اس نے ہماری حیثیت اور اوقات یاد دلا کر ہماری عزت جگا دی اور ہمیں اب واشنگٹن کی طرف دیکھنے کے بجائے علاقائی صورتحال میں بیجنگ اور دیگر اتحادیوں کی طرف دیکھتے ہوئے اسلام آباد کے مفادات کو یقینی بنانا چاہیے، جہاں تک نواز شریف کی جانب سے سینے میں پڑے رازوں اور ان کو افشا کرنے کا سوال ہے تو ایک ایسا شخص جو تین مرتبہ ملک کا منتخب وزیراعظم رہا ہو یقیناً اس کے پاس بہت سے راز ہوں گے اور ان رازوں کو افشا نہ کرنے کا انہوں نے حلف دے رکھا ہے اور امکان یہی ہے کہ وہ راز افشا کرنے کی بات ضرور کریں گے مگر انہیں زبان زد عام کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں آئے گی کیونکہ قوم جان چکی ہے کہ خود سابق وزیراعظم نوازشریف کا قصور کیا ہے، ان پر الزامات براہ راست لگائے جاتے تھے مگر پیچیدہ اقامے کے معاملہ پر انہیں اقتدار سے نکال باہر کیا۔

یہی صورتحال ہے جس کا حقیقی دکھ سابق وزیراعظم نوازشریف کو ہے اور وہ اپنی نااہلی کا سبب پیچیدہ سول ملٹری تعلقات کو سمجھتے ہیں ،انہوں نے اپنی ایک نجی ملاقات میں پہلے بھی اس امر کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کو نشانہ بنانے کیلئے ڈان لیکس کا مفروضہ گھڑا گیا اور پھر اس وقت کے طاقتور حلقوں نے اپنے من چاہے نتائج حاصل کرنے کیلئے انہیں پاناما میں ریلیف کے بالواسطہ اشارے دئیے مگر سابق وزیراعظم نوازشریف آئین میں طے کئے گئے معاملات کے تحت ہی آگے چلتے رہے اور یہی امر خود ان کیلئے خطرناک ثابت ہوا۔ اب میاں نوازشریف اپنی نااہلی کے بعد ملک کے سیاسی منظرنامہ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ طرح طرح سے ملک کی حکمران جماعت کے سیاسی کردار کو کم کرنے کی کوششیں پس چلمن ہو رہی ہیں۔ درحقیقت یہ اسی راز کی کہانی ہے جسے میاں نوازشریف اپنے سینے میں دبائے ہوئے ملکی منظرنامہ میں موجود ہیں ۔ اس وقت بھی میاں نوازشریف کا طرزعمل یہ بتا رہا ہے کہ وہ جارحانہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ایک طرف حکومت کو سیاسی میدان میں محفوظ بنائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف عدلیہ سمیت طاقت کے اصل اداروں کو دفاعی پوزیشن پر لانا چاہتے ہیں اور ان کی یہ حکمت عملی انتخابات تک جاری رہتی نظر آ رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اب مل کر ان کے خلاف صف بندی کر چکی ہیں جو کہ ان جماعتوں کی مضبوطی کے بجائے ان کی کمزوری کی نشانی ہے، بلوچستان میں ہونے والی عدم اعتماد کی کہانی کا نوازشریف نے ذکر تو نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے کارروائیوں کی بات انہوں نے بلوچستان کے بحران کے حوالے سے کی، جہاں ان کی جماعت کے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد فائل ہو چکی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں پیدا شدہ صورتحال آئندہ سینیٹ الیکشن میں خطرناک رُخ اختیار کر سکتی ہے اگر سینیٹ میں ان کی اکثریت کا راستہ روکا گیا تو اس کے اثرات یقیناً عام انتخابات پر بھی ہونگے اور نئے مینڈیٹ کے بعد آنے والی نون لیگ سینیٹ میں قانون سازی کے حوالے سے کمزور پوزیشن پر ہو گی۔ جہاں تک نوازشریف کی لاڈلے کیلئے ڈیل اور ڈھیل کی بات ہے تو یہ پاکستان کے انتہائی کمزور سیاسی عمل کی نشاندہی ہے۔ نوازشریف کی جانب سے عمران خان کو بطور لاڈلہ متعارف کرانے اور تنقید کرنے کی بات دراصل سیاسی عمل اور میدان میں من پسند قیادت اور پولیٹیکل انجینئرنگ کی طرف اشارہ ہے۔ اگر زمینی حقائق کا ادارک کیا جائے تو نوازشریف کو گھبرانے کی ضرورت نہیں اگر واقعتاً فیصلہ عوامی بیلٹ کے ذریعے ہوا تو نوازشریف پاکستان کے سیاسی اُفق پر ایک حقیقت کے طور پر موجود رہیں گے لہذا میاں صاحب لڑائی کے بجائے منصفانہ انتخابات یقینی بنانے کی تحریک چلائیں۔