خبرنامہ بلوچستان

کوئٹہ‘ریسکیو 1122 اہلکاروں نے تنخواہیں نہ ملنے پر امدادی کارروائیاں روک دیں

کوئٹہ (آئی این پی )کوئٹہ میںریسکیو 1122کے اہلکاروں نے تنخواہیں نہ ملنے پر ہڑتال شروع کردی۔لسبیلہ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جانے سے بھی احتجاجاً انکار کردیا۔ ہڑتالی ملازمین کا کہنا ہے کہ مطالبات پورے ہونے تک ایمرجنسی آپریشنز میں حصہ نہیں لیں گے ۔دوسری جانب محکمہ پی اینڈ ڈی، محکمہ خزانہ اور پی ڈی ایم اے حکام کے درمیان رولز اینڈ ریگولیشنز نے تنخواہوں کی ریلیز میں ایک دوسرے کو رکاوٹ قرار دیدیاہے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ میں رواں سال جنوری میںریسکیو1122سروس کا آغاز کیا گیا تھا جس کیلئے34اہلکاروں کو کنٹریکٹ بنیادوں پر کئی مہینے پہلے بھرتی کیا گیا تھا۔ انہیں لاہور میں6مہینے کی تربیت دی گئی جہاں انہوں نے لاہور کے سندر اسٹیٹ میں فیکٹری گرنے کے بعد پاک فوج کے ساتھ ملکر ریسکیو کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد اہلکاروں نے دسمبر2015ءمیں کوئٹہ میں ریسکیو 1122کو جوائن کیا ۔ اہلکاروںکے کنٹریکٹ میں فروری2016ءمیں ایک سال کی توسیع کی گئی تاہم بعدازاں انہیں جون تک چار مہینوں تک تنخواہیں نہیں دی گئیں جون میں عید کے قریب آتے ہی پی ڈی ایم اے نے مجبوراً اپنے ریلیف بجٹ سے ملازمین کو چار ماہ کی تنخواہیں یکشمت دیں تاہم اس کے بعد سے ملازمین کو تنخواہیں اب تک نہیں ملیں۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کے گھروں میں فاقے پڑرہے ہیں اور وہ نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔ بچوں کے دودھ کا خرچہ بھی پورا نہیں ہورہا ملازمین کو اب کوئی ادھار بھی نہیں دے رہا۔ ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریسکیو 1122کے پاس کوئی آلات اور مشنری نہیں۔ ریسکیو 1122کے پاس کوئٹہ میں صرف ورلڈ بینک کی جانب سے عطیہ کی گئیں 5ایمبولنسز ہیں ۔ ایمرجنسی آپریشنز کے دوران اہلکاروں کے پاس سیڑھی اور رسی تک نہیں ہوتیں۔ ملازمین نے بتایا کہ انہیں ریسکیو آپریشن کیلئے نہ صرف کوئٹہ بلکہ باقی اضلاع میں بھی بھیجا جاتا ہے لیکن ضروری آلات فراہم کئے جاتے ہیں اور نہ ہی سفری اخراجات دیئے جاتے ہیں۔ ملازمین اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں ان کے پاس گھر سے دفتر آنے اور جانے کا کرایہ تک نہیں ہوتا۔ باقی صوبوں میں ریسکیو1122کے اہلکاروں کی تین شفٹیں ہوتی ہیں اور شفٹ ختم ہونے کے بعد اس کے اہلکاروں کو دوبارہ آفس طلب نہیں کیا جاتا لیکن یہاں اہلکاروں کو شفٹ ختم ہونے کے بعد بھی بلایا جاتا ہے۔ملازمین نے ڈی جی پی ڈی ایم اے کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ وہ تنخواہیں ملنے تک ایمرجنسی آپریشنز میں حصہ نہیں لیں گے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر انہیں تنخواہیں نہیں دینی تھیں اور مستقل ہی نہیں کرنا تھا تو ان پر سرکاری خزانہ سے پنجاب میں چھ ماہ کی تربیت پر بڑی رقم کیوں خرچ کی گئی ۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ میرٹ پر کسی سفارش کے بغیر تعینات ہوئے اس لئے ان کے خلاف سازش کی جارہی ہے ۔بااثر حلقے چاہتے ہیں کہ وہ اپنے من پسند افراد کو پی ڈی ایم اے میں ملازمتیں دے کر نوازیں۔ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریسکیو انتہائی ذمہ داری کا کام ہے ۔ ریسکیو اہلکار پولیس اور دیگر اداروں کی طرح وردی والے اہلکار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر لوگوں کی جان بچاتے ہیں ۔ اپنے مستقل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ملازمین کیسے یکسوئی کے ساتھ اپنے فرائض دے سکتے ہیں ۔ اگر ریسکیو کے دوران کسی اہلکار کی جان چلی جاتی ہے تو کنٹریکٹ ملازم کی حیثیت سے اس کی لائف انشورنس بھی نہیں ہوتی ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریسکیو1122کے اہلکاروں کو مستقل کیا جائے تاکہ وہ ذہنی کوفت سے چھٹکارا پاسکے۔ اس سلسلے میں محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ، محکمہ خزانہ اور پی ڈی ایم اے حکام کا مو¿قف لیا گیا تو تینوں نے ایک دوسرے پر ذمہ داری عائد کی۔ محکمہ پی اینڈ ڈی کے حکام نے بتایا کہ ریسکیو1122کے پراجیکٹ کیلئے 257ملین روپے کی رقم ریلیز کردی گئی تھی جس میں ملازمین کی ایک سال کی تنخواہ بھی شامل تھی۔ جس کے بعد یہ پراجیکٹ پی ایس ڈی پی سے ختم کردیا گیا ۔اب اس پراجیکٹ کو مزید چلانے اور ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے انہیں غیر ترقیاتی بجٹ کا حصہ بنانا ہوگا اس سلسلے میں معاملات پی ڈی ایم اے اور محکمہ خزانہ ملکر طے کرسکتے ہیں۔ پی ڈی ایم اے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملازمین کی تنخواہیں ریلیز کرنے کیلئے سمری محکمہ خزانہ کو بجھوائی ہوئی ہے لیکن سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کے بعد سے اس سمری پر کام رک گیا ہے ۔ تاہم محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی پراجیکٹ کو نان ڈویلپمنٹ بجٹ کا حصہ بنانے کیلئے مروجہ طریقہ کار ہے ۔ پی ڈی ایم اے اپنے بجٹ میں سے نئی آسامیاں تخلیق کرسکتا ہے اور اس پر رولز اینڈ ریگولیشنز کے تحت اخبارات میں آسامیوں کو دوبارہ مشتہر کرکے نئے ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد ہی تقرریاں ہوسکتی ہیں۔ کنٹریکٹ پر تعینات ملازمین کو اس رح مستقل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات اور فیصلے موجود اورکنٹریکٹ ملازمین کی اس طرح ریگولرائزیشن کو غیر قانونی قرار دیا جاسکتا ہے ۔اگر ان کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا گیا تو بی ڈی اے، واسا اور پی پی ایچ آئی کے کنٹریکٹ ملازمین بھی ریگولرائزیشن مانگیں گے ۔دریں اثناءپی ڈی ایم اے ذرائع نے یہ بتایا ہے کہ پی ڈی ایم اے آفس میں ریسکیو1122کی عمارت کا کام مکمل ہوچکا ہے تاہم مشنری اور آلات کی خریداری کیلئے200ملین روپے کا کیس عدالت میں گزشتہ ایک سال سے زیر التواءہے ۔ ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم اے کے تحت ریسکیو1122کے سیکنڈ فیز کیلئے400ملین روپے کی رقم ریلیز ہوچکی ہے جس کے تحت کوئٹہ کے کواری روڈ، اکرم اسپتال کے قریب پل کے نیچے ، ڈپٹی کمشنر آفس کے قریب اور ڈبل روڈ پر اربن پلاننگ کے دفتر میں چار نئے ریسکیو سینٹر بنائے جائیں گے ۔اس کے علاوہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے مزید 19آسامیوں کیلئے اخبارات میں اشتہارات جاری کئے جاچکے ہیں لیکن یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم اے میں پہلے سے60مستقل اور32کنٹریکٹ ملازمین موجود ہیں جبکہ ریسکیو 1122کے پہلے سے موجود اہلکاروں کو بھی تنخواہیں جاری نہیں کی جارہیںتو تو مزید بھرتیوں کی کیا ضرورت ؟۔