خبرنامہ بلوچستان

کوئٹہ چرچ پر حملہ : پولیس اہلکار اور چوکیدار ہیرو

کوئٹہ چرچ پر حملہ : پولیس اہلکار اور چوکیدار ہیرو
کوئٹہ:(ملت آن لائن) میں اور ایس ایس پی آپریشنز نصیب اللہ فیلڈ دورے پرتھے جب ہمیں موبائل کنٹرول کے ذریعے اطلاع ملی کہ چرچ پر حملہ ہوا ہے ۔ 12 بج کر 6 منٹ کا وقت تھا، جب ایک دھماکہ ہوا۔ ہمارے پاس بلٹ پروف گاڑی تھی جس میں ہم اندر گئے، اس وقت ڈر یہ تھا کہ کہیں اے پی ایس کی طرح کا سانحہ نہ ہو جائے ۔جب ہم موقع پر پہنچے تو متعلقہ ایس ایچ او مین گیٹ پر موجود تھا۔ چرچ کی شکل ایل کی طرح ہے ،جس کے دونوں کونوں پر دروازے ہیں۔ دہشتگرد ایک گیٹ سے داخل ہوئے ۔ ایک دہشتگرد کو پولیس اہلکار نے جو پیچھے کسی مقام پر بیٹھا ہوا تھا، فائرنگ سے مصروف رکھا۔ جس سے وہ زخمی ہو گیا اور اس نے مجبور ہو کر لکڑی کے دروازے کے پا س باہر ہی خو د کو اڑا دیا، جس سے وہ لوگ ہی زیادہ زخمی یا جاں بحق ہوئے جو دروازے کے پاس کھڑے تھے۔ اگر وہ دروازے کے اندر چلا جاتا تو پھر بہت زیادہ جانی نقصان ہونے کا خطرہ تھا۔
دوسرا دہشت گرد عبادت گاہ سے نکلنے والے افرا د کو نشانہ بناتا رہا۔ اسے پولیس اور فر نٹیئر کور کے اہلکاروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ اس وقت یہ اطلاع بھی تھی کہ دو حملہ آور اور بھی ہیں، جس کے لئے سرچ آپریشن کیا گیا لیکن جب ویڈیو فوٹیج ملی تو پتہ چلا کہ دو ہی لوگ تھے۔ بہادری اس پولیس اہلکار کی تھی جو سب سے پہلے اندر داخل ہو ا میں تو اس وقت داخل ہوا جس وقت پولیس کے جوان اندر جا چکے تھے، میرا بھی پیچھے رہنا بنتا نہیں تھا۔ اطلاع یہ تھی کہ اندر مزید دو حملہ آور موجود ہیں۔ ایس ایس پی اپنے جوانو ں کے ساتھ اندر داخل ہوئے اور مین گیٹ کو محفوظ بنایا اس کے بعد چرچ کی مرکزی عمارت کی جانب بڑھے، ابھی ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ چرچ کے اندر کوئی حملہ آور موجود ہے یا نہیں اس وقت لوگ محصور ہو کر بیٹھے ہوئے تھے کہ کہیں باہر کوئی دہشتگرد نہ ہو۔ جب انہوں نے باوردی افسر دیکھا تو انہیں کچھ حوصلہ ملا اور ایک بندہ باہر آیا، جس کے بعد میں بھی چرچ کے اندر داخل ہو ا تو وہاں پر بچے، خواتین اور خون آلود کپڑوں میں مرد زخمی حالت میں پڑے تھے ،لوگ رو رہے تھے، ویسے بھی زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کے رشتے دار تھے، وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ خون نکل رہا ہے، کوئی زخمی ہے اور کوئی فوت ہو چکا ہے تو یہ بچ جانے والوں کی تکلیف میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ پھر زخمیوں کو نکالنے میں ہم نے مدد کی۔
ایمبو لینسز جو مرکزی دروازے کے باہر کھڑی تھیں، انہیں اندر لایا گیا اور زخمیوں کو ان میں ڈال کر ہسپتال منتقل کرنے کا عمل شروع کیا گیا، میں چونکہ اس سارے عمل کی نگرانی کر رہا تھا اور اسی دوران ایک زخمی جو بہت بھاری تھا اور اٹھایا نہیں جارہا تھا ،اس کو میں نے اٹھایا ،اس کے علاوہ میرے ساتھ جو لوگ تھے ،وہی زخمیوں کو ایمبو لینس تک لے کر گئے ۔لوگ بھی مدد کے لئے وہاں پہنچ چکے تھے ۔ اس حملے میں کافی لوگ پوری طرح محفوظ بھی تھے کیونکہ دوسرا خودکش بمبار مرکزی عمارت کے اندر داخل نہیں ہو سکا تھا۔یہ بات بڑی حوصلہ افزا تھی کہ ہمارے پولیس کے جوانوں نے بہت بہتر رسپانس دیا ،ان کی ویڈیو بھی منظر عام پرا ٓئی جو دیگر پولیس والوں کیلئے یقیناََحوصلے میں اضافے کا سبب بنے گی ۔ میرے خیال میں پولیس اہلکار اب زیادہ الرٹ رہتے ہیں یہاں بھی پولیس اہلکار کے بروقت رسپانس نے بہتر نتائج مرتب کئے ۔اس میں چوکیدار کا کردار بھی اہم تھا جس نے پہلے مین گیٹ بند کیاجس کی وجہ سے حملہ آوروں کو داخل ہونے میں مشکل پیش آئی اور کچھ وقت بھی ضائع ہوا ۔ دہشتگردوں پر فائرنگ کرنیوالا اور سب سے پہلے اندر داخل ہونیوالا اہلکار اسکے ساتھ چوکیدار نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا ۔ان کی حوصلہ افزائی کیلئے ہم سفارشات بنا رہے ہیں ،پولیس کاایک اہلکار زخمی ہوا ،اس کے لئے پولیس اپنے لیول پر جوبھی تعریفی اسناد،میڈلز یا انعام کی سفارش کرے گی ، حکومت اس پر یقیناََ غور کرے گی ۔بلوچستان میں صورتحا ل پہلے بہت خراب تھی، اب اس پر بہت حد تک کنٹرول کیا جا چکا ہے ۔بہت سی بیرونی قوتیں بلوچستان میں مداخلت کررہی ہیں ۔افغانستان کی سرحد قریب ہے ،وہاں سے انہیں سپانسر اور چھپنے کی جگہ بھی مل جاتی ہے ۔سی پیک کے حوالے سے بہت سے ملکوں اورایجنسیوں کی کوشش ہے کہ فعال نہ ہو سکے ،اس لئے اب بلوچستان پر ان کا زیادہ فوکس ہے ۔تاہم یہاں کی تمام سکیورٹی فورسز ،انٹیلی جنس ایجنسیز اورہمارے انتظامی دفاتر سب مل کر کام کررہے ہیں اور ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جا سکے۔