کیا یہ محض سوئے اتفاق ہے کہ ادھر ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کا اعلان سامنے آیا، ادھر بلوچستان سے را کے ایک ایسے جاسوس کی گرفتاری عمل میں آگئی جو ایران سے ویزہ لے کر پاکستا ن میں داخل ہوا تھا۔
مگر یہ کیا ہوا کہ ایرانی صدر کے ساتھ ہمارے �آرمی چیف کی ملاقات ہوئی اور اس بارے ٹویٹ میں کہا گیا کہ جنرل راحیل نے ایرانی صدر سے کہا ہے کہ وہ بھارت کوا س امر کی ا جازت نہ دیں کہ وہ ایرانی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کرسکے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہمارے اخبارات نے آرمی چیف کے مطالبے پر مبنی ہیڈ لائینیں بھی لگائی ہیں اور ایرانی صدر کی طرف سے یہ تردید بھی شائع کی ہے کہ جنرل راحیل سے ان کی بھارتی دہشت گردی کے مسئلے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
مجھے ایک اخبار نویس کے طور پر آرمی چیف ا ور ایرانی صدر کے دعووں میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔آرمی چیف نے معزز مہمان سے ا سکے علاوہ کیا بات کرنا تھی ، ظاہر ہے انہیں ایران سے تجارت وسیع کرنے کا مسئلہ تو نہیں اٹھانا تھا،دوسری طرف ایرانی صدر نے بھی بجا طور پر ضرب عضب میں پاک فوج کے کامیاب کردار کی ستائش ہی کرنا تھی، یہ ستائش ساری دنیا کر رہی ہے۔رہا مسئلہ پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کا تو اس پر ایرانی صدر نے اس بھارت کو ناراض نہیں کرنا تھا جسے وہ میڈیا بریفنگ میں ایک دوست ملک قرار دے رہے ہیں۔اس لئے انہوں نے ڈپلو میسی سے کام لیا اور یہ کہہ د یا کہ ان کی جنرل راحیل سے ایسے موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی، اب جنرل راحیل کوئی مناظرہ باز مولوی تو ہیں نہیں کہ ایرانی صدر کو چیلنج کریں کہ میں نے جب بات کی ہے تو آپ تردید کیوں فرماتے ہیں۔دونوں کے درمیان ون ٹو ون ملاقات ہوئی، درمیان میں ایک ترجمان تھا اور ترجمان تو ہمیشہ گونگا ہوتا ہے صرف ملاقات کے دوران بولتا ہے،وہ بھی لنگر لنگوٹ کس کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ جنرل راحیل نے ایسی کوئی بات نہیں کی ، آخر نصف گھنٹے میں کوئی تو بات ہوئی ہو گی ، اس میں پندرہ منٹ ترجمے کے نکا ل دیں تو بھی باقی پندرہ منٹوں میں دو باتیں تو ہو سکتی ہیں ، ایک بھارتی را کے ایجنٹوں کا ایران کے راستے پاکستان میں دخل اندازی اور دوسرے، ایرانی صدر اپنے سامنے بیٹھے ہوئے پاکستانی جرنیل کو ضرب عضب کی کامیابی پر مبارکباد نہ دیتے تو اور کیا کہتے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ا س موقع پر جنرل راحیل نے ایران کو سعودی عرب سے تعلقات ٹھیک کرنے کے لئے کوئی مشورہ دیا ہو، یہ ان کی ذمے داری میں شامل نہیں ہے اور اگر یہ مشورہ دینا ہی تھا تو جب انہیں وزیرا عظم اپنے ساتھ تہران لے گئے تھے تو یہ موضوع لازمی طور پر تب زیر بحث آیا ہو گا۔ ایران نے ا س ثالثی کو قبول کیا یا نہ کیا ، یہ ا سکی مرضی ہے مگر اسلام �آباد کی حالیہ ملاقات میں تو اس موضوع پر بات کی کوئی منطق نہیں تھی، ا سلئے نہ جنرل نے اس مسئلے کوچھیڑا ، نہ ایرانی صدر نے ا سکی تردید کی ، اب اگر کسی بات کی تردید ہوئی تو وہ بھارتی دہشت گردی ہے جس کے لئے ایران کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے اور جس کی گرہیں روز بروز کھل رہی ہیں اور ایک وسیع نیٹ ورک کاا نکشاف ہو چکا ہے جو گوادرا ورپاکستان کی دوسری بندر گاہوں کو نقصان پہنچانے کے مشن میں مصروف تھا۔جنرل راحیل فوجی آدمی ہیں ، انہوں نے فوجی معاملات پر ہی گفتگو کی اور ایرانی صدر ایک عوامی منصب پر فائز ہیں ،اسلئے انہوں نے سفارت کاری کی زبان کا سہارا لیا۔
مگر یہ ضرور ہے کہ معزز مہمان نے بھارت سے دوستی کے معاملے پر سفارت کاری کی نزاکتوں کو ملحوظ نہیں رکھااور پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر یہ کہنے کی ضرورت محسوس کی ان کاملک بھارت کا بھی دوست ہے۔میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب ایرانی صدر کو بھارت کے معاملے میں پاکستانی عوام کی حساسیست کا بخوبی ادراک ہے توانہوں نے ہمارے عوامی جذبات کاپاس لحاظ کیوں نہیں کیا۔میری یادداشت کے مطابق کسی پاکستانی لیڈر نے ایرانی سرزمین پر کھڑے ہوکر یہ نہیں کہا کہ سعودی عرب بھی ہمارا دوست ملک ہے، حالانکہ ایساکہنے میں حرج بھی کوئی نہیں کہ ایران اور سعودی عرب دونوں سے اسلامی بھائی چارے کا رشتہ ہے۔لیکن جب سے یمن اورا سکے بعد شام کا مسئلہ پیچیدہ صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، پاکستان نے اپنی غیر جانبداری کابھرم قائم رکھنے کی کامیاب اور بھر پور کوشش کی ہے۔
پاکستا ن ہر گز ہر گز دوسرے برادر اسلامی ملکوں کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا، نہ ا س نے کبھی کوئی ایسی کوشش کی ہے۔پاکستان اچھی طرح جانتا ہے کہ بھارت سے کس اسلامی ملک کے کس سطح کے تعلقات ہیں، مگر پاکستان یہ تو ضرور چاہتا ہے کہ دوسرے اسلامی ملک بھارت کی پاکستان دشمنی پر اغماض نہ برتیں اور بھارت سے تعلقات کو پاکستان کے مفادات کی قیمت پر فروغ نہ دیں۔مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی جب میں نے یہ دیکھا کہ ایرانی صدر کی میڈیا بریفنگ پر تلخی کا عنصر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔مجھے اچھی طرح احساس ہے کہ سعودی عرب کو چونتیس ممالک کے فوجی اتحاد کی تشکیل کے بعد ایران کو اپنے ارد گرد دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے اور ایرانی صدر کا دورہ پاکستان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اب یہ تو ایرانی صدر ہی بتا سکتے ہیں کہ ا نہیں اپنی ا س پہلی کوشش میں کہاں تک کامیابی میسر آئی، میں خارجہ امور میں مہارت کا دعوی نہیں رکھتا، اس دورے کیاتجزیہ ہمارے سابق سفارت کاروں کے ذریعے سامنے آئے گاا ور عالمی مبصرین بھی ا س کا جائزہ پیش کریں گے تو پھر کوئی حقیقی رائے بن پائے گی۔
فی الحال بعض عناصر کی بھرپور کوشش ہے کہ ایک تو پاکستان ا ور ایران کے باہمی قریبی تعلقات کو خرابی کی راہ پر ڈال دیں ، دوسرے پاکستان کے اندر فوج اور سول منتخب حکومت میں تصادم کروا دیا جائے ،اس لئے اس مسئلے کو بہت زیادہ اچھالا جا رہا ہے کہ آرمی چیف نے ایرانی صدر سے بھارتی دہشت گردی کی بات کیوں کی ا ور اگر نہیں کی تو پھر ایسا دعوی کیوں کیا۔
میری دعا ہے کہ دونوں سازشیں ناکامی سے دوچار ہوں۔سول حکومت کو اپنے مسلمان ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے میں کامیابی نصیب ہو اور افواج پاکستان کو بھارتی عزائم خاک میں ملانے میں مکمل کامیابی حاصل ہو۔
آپ بھی اس دعا پر�آمین کہئے!!