بیاربیٹ میں شکست کے بعد ہندوستان نے صحرائے کچھ کے تنازعہ کر طول دے کر اسے مکمل جنگ کی صورت میں تبدیل کرنے کی پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ہندوستان کے وزیر اعظم نے ہندوستانی پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا۔”اگر پاکستان معقولیت سے کام لینے سے انکار کر تا رہا تو ہندوستانی فو ج خود اپنی مرضی کا محاذ جنگ منتخب کرے گی اور طے کرے گی کہ اسے اپنی افرادی طاقت اور فوجی سازو سامان کو بہترین طریقہ پر استعمال کرنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔“ ہندوستان کے وزیر اعظم کا یہ بیان اگر اعلان جنگ نہیں تو الٹی میٹم کی یقینا حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان میں کسی فرد واحد کو یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ہندوستان اپنے قریب ترین پڑوسی کے خلاف اس قسم کے معاندانہ عزائم اور فو جی کاروائی پر اتر آئے گا اورخصوصاً ایسی صور ت میں جب کہ حکومت پاکستان صحرائے کچھ کے تنازعہ کے پر امن اور با عزت تصفیہ کی کوششوں میں مسلسل مصروف تھی۔ اسی بنا پر ہندوستان کے وزیر اعظم کے اعلان سے پاکستان کے پر امن عزائم اور اسکی مصالحانہ کوششوں کو زبردست دھچکا پہنچا۔
جنگ کے متعلق ہندوستان کی بے سوچی سمجھی اور سطحی باتیں عجیب سی معلوم ہوئیں۔ اس لئے ابتداءمیں جو خیال پیدا ہوا وہ یہ تھاکہ غالباً ہندوستان کا مقصد پاکستان کو مرعوب کر کے صحرائے کچھ کے تنازعہ کو عجلت کے ساتھ طے کرنے پر مجبو ر کرنا ہے۔ لیکن فوراً ہی بعد ہر کس و ناکس پر یہ عیاں ہو گیا کہ ہندوستان کا مقصد کچھ اور ہی تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے واسطے مشرقی اور مغربی پاکستان میں ہماری سرحدوں کے قریپ زبر دست فوجی کاروائیاںشروع کردیں۔اس نے فی الحقیقت ان کار وائیوں کامنصوبہ پہلے ہی سے تیار کر رکھا تھا جسے اس نے انتہائی خفیہ طریقے پر عملی جام پہنانے کی کو شش کی کیونکہ وہ پاکستان پر اچانک حملہ کرنا چاہتا تھا ۔ ہندوستان ، پاکستان کے خلاف جوعظیم فوج میدان میں لایا اس میں وہ دس پہاڑی ڈویژن بھی شامل تھے جو حال ہی میں صر ف مغر بی ملکوں کی امداد سے ہندوستان نے کھڑے کئے ہیں۔
غرض پاکستان پر ہندوستان کا حملہ جلد ہی ہوتا نظر آنے لگا۔ بہر حال چیلنج حقیقی تھا اوہ انتہائی سنگین غا لباًاتنے ہی سنگین چیلنج سے پاکستان کو اپنے قریبی پڑوسی کی طرف سے پہلے دو چار نہیں ہونا پڑا تھا۔لیکن پوری قوم یک دل اور ایک جان ہو کر اس کا مقابلہ کرنے کے واسطے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ پاکستان آرمی میدان عمل میں آگئی۔ اس نے ہر جار حانہ اقدام کا جواب دینے کے واسطے پورے ملک کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور سر حدوں پر آہنی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔ اس طرح اچانک حملہ کا جو خواب ہندوستان دیکھ رہا تھا وہ عملی جامہ نہ پہن سکا۔
ہندوستان کے غیر متوقع چیلنج کا مقابلہ کرنے کے واسطے پاکستان آرمی جس نہج سے متعین کی گئی وہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو فوجی نظم و نسق کی اعلےٰ جنگی مہارتوں اور میدان جنگ میں انتہائی پھرتی اور مستعدی کا مظہر ہے۔ صد ر مملکت نے پاکستان آرمی کے اس کارنامہ کے اعتراف میں آرمی کمانڈر انچیف کو حال ہی میں جو خط لکھا ہے اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں”ہماری فوجوں کی نقل و حرکت اور صف آرائی ، حالات اور تقا ضوں کے بالکل مطابق حددرجہ پھرتی اور عمدگی کے ساتھ کی گئی“
یہ ایک عظیم کام تھا اور یہ نہیں بلکہ پاکستان آرمی کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور مقابلہ کی اہلیت کا یہ ایک سخت امتحان بھی تھا، اس امتحان کا نتیجہ سامنے آچکا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ پاکستا ن آرمی کس عظیم ا لشان طریقہ پر امتحان میں پوری اتری ۔ سینکڑوں میل کی مسافت طے کر کے دور افتادہ مقامات سے کثیر تعداد میں یونٹو ںکو مع ان کے سازو سامان کے فوجوں کے اجتما ع کے ٹھکا نوں تک پہنچانا کوئی آسان کام نہ تھا مگر اس کام کو نہایت ہی عمدگی کے ساتھ انجام دیا گیا۔ بگل کے بجنے کے صرف چند گھنٹے کے اندر ہماری فوجیں صف آراءہو کر ہر صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر بستہ ہو گئیں۔ نقل وحرکت ، پیش بینی، برمحل اقدام اور اس علاقہ کے انتخاب کے سلسلہ میں جو دشمن کی زد میں آسکتا تھا یہ بہت بڑا کام تھا۔
فی الحقیقت پاکستان آرمی نے اپنی اس فوری اور پر جوش کاروائی کے ذریعے زیر خطر علاقوں میں فو جوں اور اسلحہ کو یکجا کر کے انڈین آرمی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس کا آئندہ اقدام کیا ہونا چاہیے۔اس کے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ پاکستان آرمی کی نقل و حرکت اتنی تیز ہو گی۔ غرض اس تیزی نے اصل صورت حال سے انہیں دو چار کرادیا۔ پاکستان کی حدود میں فوجیں اس عمدگی کے ساتھ صف بستہ کی گئیں اور ہر علاقہ کی حفاظت کا اتنا اچھا انتظام کیا گیا کہ دشمن کے لئے کسی کمزور خطہ کو تلاش کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرناناممکن ہوگیا۔ سر حدوں کی حفاظت کی خدمت پر مامو ر پاکستان آرمی کو دو طرفہ وار کرنے والے ایسے ہتھیار کی حیثیت حا صل تھی جس میں دفاع کرنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہو۔ اور حملہ کرنے کی طاقت بھی غرض وہ ڈھال بھی تھی۔ اور کٹار بھی۔
پاکستان جیسے کم چوڑے ملک کے دفاع کے واسطے ضروری ہے کہ آرمی اپنے علاقہ میں دشمن کو قدم تک نہ رکھنے دے اور یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب آرمی پورے طور پر تیار ہو اور ضرورت پڑنے پر برق رفتاری اور موثر طاقت کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ فوج کے ایک سینئر کمانڈر کے الفاظ میں دفاع کی خدمت پر مامور آرمی جو پوزیشن پاکستان آرمی کی تھی کے لئے جو اپنے علاقہ کی ایک ایک انچ زمین کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے کا جذبہ رکھتی ہو لازمی ہے کہ وہ حدودرجہ چوکناّ ہو اور دفاع نیز آگے بڑھ کر وار کرنے واسطے ہر اعتبار سے تیار ہو ۔ اس کی حالت میدان جنگ میں اس اچھے اور تجربہ کارگھوڑے جیسی ہونی چاہیے جو خطرہ کو بھانپ کر اپنے کان کھڑے کر لیتا ہے اور آن کی آن میں میدان جنگ میں کو د پڑتا ہے۔
میدان جنگ میں آہنی خود پہنے ہوئے پسینہ میں شرابور اور مئی اور جون کی تیز دھوپ کی وجہ سے تپتی ہوئی خندقوں اور خیموں میں انتظار کے طویل لمحات گزارنا یقینا ہمارے افسروں اور جوانوں کے صبرو ضبط اور طاقت برداشت کا ایک سخت امتحان تھا مگر انہوں نے ماتھے پر شکن ڈالے بغیر حالات کا ہنسی خوشی مقابلہ کر کے امتحان میں کامیابی حاصل کرلی۔ ان میں سے ہر ایک کا دل اگرچہ میدان عمل میں گامزن ہونے کے واسطے بے تاب تھا مگر انہوں نے اپنی تڑپ کو دبائے رکھا اور اپنی پوزیشن سے جنبش نہ کر کے اپنے فرائض کو نہایت ہی سکون و عمدگی کے ساتھ انجام دیا۔ لڑائی کی خو بو رکھنے والے ایک تربیت یافتہ اور محب وطن فوجی کے واسطے اس جمود سے زیادہ کوئی دوسری چیز تکلیف دہ نہیں ہو سکتی جو محاذ پر طاری تھا مگر وہ صحرائے کچھ کے بے آب وگیاہ علاقے میں سورج کی تپش اور گرد و غبار کے ان طو فانوں سے جو اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے لا پرواپنی ڈیوٹی پر ڈٹا وقت کا انتظار کرتا رہا۔ ان تکلیف دہ حالات کا نہ اس کی خوش مزاجی پر اور نہ ملک کو غیر ملکی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے انتہائی مشکل حالات کا سکون کے ساتھ مقابلہ کرکے اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے کے متعلق اس کی تیاریوں پر کوئی برا اثر نہ پڑا۔
صحرائے کچھ میں بیار بیٹ میں فیصلہ کن فتح حاصل کرنے کے بعد پاکستان فوجیں دشمن کے دو بارہ نمو دار ہونے کا انتظار کرتی رہیں مگر وہ سامنے نہ آیا۔ ہمار اہر جوان میدان عمل میں اترنے کے لئے بے قرار تھا اور بقول ایک بریگیڈئیر کے انہیں قابو میں رکھنے کے واسطے حقیقی معنوں میں جکڑ بند کرنا پڑا۔ موسمی حالت بھی حد درجہ ناساز گار تھی اور برابر زیادہ سے زیادہ خراب ہوتی جاتی تھی ۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ سایہ میں درجہ حرارت۰ ۲۱ڈگری تک پہنچ جاتا تھا۔ سورج نے زمین اور آسمان کو جھلس رکھا تھا اور معلوم ہوتا تھا گو یا وہ کبھی غروب نہیں ہوگا ۔ آہنی خود کے اندر گرمی اتنی شدید تھی کہ دماغ کو پگھلائے دیتی تھی اور پیروں کی حالت یہ تھی کہ وہ خندقوں کے اندر کی نمی میں دھنسے ہونے کی وجہ سے بے جان ہوگئے تھے۔ صحرائی سراب بلند ہوکر گرتے تھے جس کی وجہ سے انسان طرح طرح کے دھوکوں میں مبتلا ہو جاتا تھا۔ گردو غبار کی آندھیاں برابر اٹھتی رہتی تھیں۔ جس کی بنا پر دم گھُٹا جاتا تھا لیکن ہمارا ہر جوان خوش و خرم تھا اور دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے پوری طرح تیارتھا۔ صحرائے کچھ میں پاکستانی فوج اپنی مرضی سے نہیں گئی تھی بلکہ ہندوستان کے جارحانہ اقدام کا جواب دینے کے واسطے وہاں پہنچی تھی۔
بقو ل صد ر مملکت کے”اگر ہمارے پاکستانیوں کے عزائم جارحانہ ہوتے تو ہم رن کچھ کے دلدلی علاقہ کی نسبت کوئی دوسرا اچھاعلاقہ منتخب کرتے جس کے لئے ہمیں بہتر مواقع حاصل بھی ہوئے۔ مثال کے طور پر اس وقت ہم ہندوستان کے خلاف محاذ قائم کرسکتے تھے جب ہندوستانی فوجیں چینیوں کے ہا تھوں شکست کھا کر بھاگ رہی تھیں مگر ہندوستان کی مسلسل اشتعال انگیزیوں کے باوجود ہمارے جذبہ امن نے ہمیں روکے رکھا“پاکستان آرمی کچھ کے میدان جنگ میں اس وقت اتری جب ہندوستانی فوج شمال کی طر ف سے بڑھ کر پاکستانی علاقہ میں گھس آئی۔ ہندوستان کی اس جارحانہ کاروائی کے باوجود پاکستان آرمی کو یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ وہ علاقہ پر قبضہ کی کو شش نہ کرے بلکہ دشمن کو ان علاقوں سے جو پاکستان کی حدود میں ہوں یا اس کے حدود سے بہت ہی قریب ہوں نکالنے کی کوشش کرے۔
صحرائے کچھ کے معمولی تنازعہ کے آغاز کے فوراً ہی بعد ہندوستان کثیر تعداد میں اپنی فوجیں پاکستان کے خلاف لے آیا جس سے پاکستان کو شدیدخطرات لاحق ہو گئے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اگر ہندوستان کی جارحانہ نقل و حرکت کے جواب میں پاکستان آرمی نے فوری اقدام نہ کئے ہوتے تو پاکستان کے بڑے شہر وں میں سے ایک پرحملہ تقریباً یقینی تھا مگر یہ حملہ محض اس لئے نہیں ہوسکا کہ پاکستان آرمی برق رفتاری کے ساتھ موقع پرپہنچ گئی اور اس نے مورچے سنبھال لئے۔ چنانچہ پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ جب محاذ جنگ کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ پورے طور پار مسلح اور جفا کش جوانوں اور افسروں کی میدان جنگ میں موجودگی دشمن کی راہ میں سنگ گراں بن کر حائل ہو گئی ہے۔
قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ بیار بیٹ کی جنگ میں اپنے حشر سے ہندوستانیوں نے ایک نتیجہ اخذ کیا۔ اور وہ یہ کہ وہ پاکستان آرمی کو چیلنج کر کے اسے کامیابی کے ساتھ نمٹ نہیںسکتے ۔ اور زیادہ بڑی لڑائی میں ہی وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے پر تیار تھے ۔ بشر طیکہ انہیں لڑنے پر مجبو ر کیا جاتا ۔ بیار بیٹ کی جنگ نے دو چیزیں عیاں کر دیں جو یہ ہیں۔ حالات کا درست اندازہ کرنے میں پاکستان کے فوجی اپنے حریف سے زیادہ بہتر صلاحیت رکھتے ہیںاورآفیسر کمانڈنگ سے لے کر عم جوان تک کے حوصلے ہندو ستانیوں سے زیادہ بلند تھے۔ ان خصوصیات اور دوسری خوبیوں نے پاکستانی فوج کو ایسی مر بوط ، مضبوط اور پر عزم فوج کی حیثیت دے دی تھی جو ناسازگار حالات اور مشکلات کی پروا کئے بغیر میدان میں اترنے کے واسطے بالکل تیار تھی۔ اس میں کوئی شک نہی کہ دشمن کو افرادی طاقت میں زبر دست برتری حاصل تھی۔ اس کے علاوہ اس کے پاس اسلحہ بھی بہت زیادہ تھا مگر پاکستان کے فوجیوں کی بہتر تربیت،جسمانی موزونیت، عزائم راسخ اور مقصد کے نیک ہونے پر غیر متنر لزل اعتماد نے ہندوستانیوں کو بے بس کر دیا۔
تیسری چیز جو بیاربیٹ کی جنگ کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی وہ یہ تھی کہ کوئی ملک خواہ کتنی ہی کوشش کرے غلط اور لا یعنی پروپیگنڈہ حقائق کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کچھ دنوں کے واسطے تو ضرور لوگو ں کو گمراہ کر سکتے ہیں مگر ہمیشہ کے لئے نہیں اور نہ یہ پروپیگنڈے شکست کو فتح میں تبدیل کر سکتے ہیں بیاربیٹ پر باکستان کے قبضہ کے بعد مسلسل تین دن تک ہندوستانی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف رہے کہ بیاربیٹ ہندوستان کے ہاتھ میں ہے لیکن جب غیر ملکی صحافیوں نے موقع پر پہنچ کر بیار بیٹ پر پاکستان کے قبضہ اور ہندوستانیوں کی شکست کر تصدیق کر دی تو ہندوستان کو بھی اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا۔ اس کے بر عکس پاکستان نے کبھی حقائق کو چھپانے کی کوشش نہیںکی اور نہ اس نے وقتی طورپر عارضی فائدہ اٹھانے کی غرض سے کبھی جھوٹ بولا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ حقیقت چھپی نہیں رہ سکتی اور اصل صورت حال کے منظر عام پر آنے کے بعد اسے دنیا کی نگاہوں میں شرمندہ و شرمسار ہونا پڑے گا۔
ہندوستان نے یہی غلطی اپنے اس پرو پیگنڈہ کے سلسلے میں کی جس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ صحرائے کچھ کے محاذ پر پاکستان نے انڈین ٓرمی کے خلاف جس اسلحہ سے کام لیا ہے ان میں بہت بڑ تعداد امریکی اسلحہ کی ہے۔ہندوستان نے اپنے اس پرو پیگنڈہ کو درست ثابت کرنے کی غرض سے ایسی فرضی فضائی تصاویر شائع کیں جن دکھایا گیا تھا کہ امریکی ساخت کے ٹینکوں سے کچھ کے علاقہ میں کام لیا جا رہا ہے ۔ یہ ٹینک نہ پاکستانی تھے اورنہ وہ حرکت ہی میں تھے۔ اور ان کی توپیں جھکی ہوئی تھیں۔ یہ پوزیشن ان ٹینکوں کی نہیں ہوتی جو میدان جنگ میں سر گرم عمل میں ہوں۔ اس کے بر عکس پاکستان نے بہت بڑی تعداد میں اس امریکی اسلحہ کی اصلی تصاویر جاری کیں جو انڈین آرمی بیاربیٹ اور پوائنٹ نمبر۴۸میں چھوڑ کر بھاگی تھی۔ ان میں سے متعدد تصاویر وہ غیر ملکی صحافی بھی اپنے ساتھ لے گئے جو محاذ جنگ کے دورے پر آئے تھے۔ ان تصاویر کو ہندوستانی بھی نہ جھٹلا سکے۔
محاذ جنگ پر مامورپاکستانی فو جیو ں کی بعض خصو صیات ایسی تھیںجو ہر کس و ناکس کی توجہ ان کی طرف مبذول کرائے بغیر نہ رہ سکیں، وہ توانا و تندرست اور جملہ سپاہیانہ خوبیوں سے مزین جوان تھے اور اپنے ملک کی سلامتی کے لئے انہوں نے اپنے کو وقف کر رکھا تھا۔ ان کی نگاہ میں اپنے ملک کے وقار،سلامتی اور عظمت سے زیادہ کسی دوسری چیز کی کوئی اہمیت حاصل نہ تھی۔ وہ گرد نواح سے بے پروا سورج کی تپش اوردلدلی زمین کی نمی کی طرف توجہ دیئے بغیر گھنٹوں بیٹھے دیکھ بھال کے کامو ں مصروف رہتے تھے۔ ایک علاقہ ایسا بھی تھا جہاں ہر طرف سانپ نظرآتے تھے۔ سانپوں کی کثرت کا اندازہ اس سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ تین یا چار دن کے اند ر ستر سانپ مارے گئے مگر ان چیزوں میں کوئی چیز نہ ان کی توجہ اپنے فرائض منصبی کی طر ف سے ہٹا سکی اور نہ ان میں انتشار یا ابتری پیدا کر سکی۔ سر حدی علاقوں میں فوجوں کے پہنچنے کے بعد وہاں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی اور وہ سکونی کیفیت جو عام طور پر دیہات میں نظر آتی ہے زبردست چہل پہل میں تبدیل ہو گئی ۔ کھیتوں میں جیپ گاڑیاں دوڑنے لگیں، وزنی ٹرک تنگ اور دلدلی کچے راستوں سے گزرنے کی کوشش کرتے ہوئے اور فوجی اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہوئے نظر آنے لگے۔ ریڈیو ٹیلی فون کا نظام بھی سر گرام عمل ہو گیا۔ افسر اپنے سامنے رکھے ہوئے نقشوں پر نظر جمائے دکھائی دینے لگے۔ اور کہیں کہیںجوان ڈھکی اور چھپی ہوئی توپوں میں تیل دینے ،اسلحہ کو صاف کرنے یا اپنے سازو سامان پر پالش کرنے میں مصروف دکھائی دینے لگے۔
زندگی کی اس نئی لہر کے ساتھ ہی ساتھ کھیتوں کو بونے اور جوتنے کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آنے دیا گیا۔ کاشتکار معمول کے مطابق کھیتوں کو جاتے رہے اور گاﺅں کی عورتیں بھی کھیت میں کام کرنے والے مردوں کے واسطے پہلے کی طرح اپنے سروں پر رکھ کر یا بغلوں میں دب کر کھانے پینے کی چیزیں لے جاتی رہیں ۔ غرض پورے ہنگامی دور میں عوام کے حوصلے بلند رہے اور ان میں کسی قسم کی پریشانی یا سراسیمگی پیدا نہیں ہو ئی۔ عوام کو اپنی فوج پر اتنا زیادہ اعتماد تھا کہ ملک کا کوئی باشندہ بھی سر حد پار کے خطرات کی وجہ سے ہراساں نہ تھا۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں جو سر حد سے با لکل قریب ہے زندگی معمول پر رہی اور ہمہ وقت پہلے جیسی گہما گہمی اور بے فکری نظر آتی رہی۔ اس کی وجہ محض یہ تھی کہ سر حد پر فوجوں کے متعین کئے جانے کے بعد عوام اپنے کو پورے طو ر پر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ وہ پورے طور پر مطمئن تھے اور ان میں اضطراب کارتی برابر بھی شائبہ نہ پایا جاتا تھا