خبرنامہ

جنگ ابھی جاری ہے… میاں عامر محمود

میاں عامر محمود
صرف ایک سال کے عرصے میں ‘ ایک منتشر اور پریشان حال قوم‘ کتنی منظم ‘ پراعتماد اور پرعزم ہو سکتی ہے؟ اس کی مثال آج کا پاکستان ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ اعتماد‘ یکجہتی اور اتفاق رائے کا یہ ماحول کسی بھی دور میں پیدا ہوا ہو۔ حتیٰ کہ 1965 ءمیں جب فوج اور عوام نے ‘ اچانک بھارتی جارحیت کا مقابلہ کر کے‘ حملہآور افواج کے چھکے چھڑائے تھے‘ تو بھی چند ہفتوں کے اندر ہی معاہدہ تاشقند ہوا اور قومی یکجہتی پھر کمزور پڑ گئی۔پاک فوج تو پہلے ہی منظم اور مضبوط ادارہ ہے۔ اسے کمزور اور اقتدار کے بھوکے لالچی سربراہوں نے ایک باعزم قیادت مہیا نہیں کی تھی‘ جس کے نتیجے میں ہماری کوئی بھی فوجی کارروائی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ کمزور سیاسی قیادتیں اور کمزور چیف آفآ رمی سٹاف اس کی بڑی وجہ تھے۔ ایک سال پہلے ہم جن حالات سے دوچار تھے‘ وہ درحقیقت انہی اسباب کی بنا پر پیدا ہوئے۔ فوجی حکمرانوں کے زیرسایہ‘ کبھی جائز منتخب حکومت تو قائم ہو نہیں سکتی‘ جو اپاہج قیادت ‘ بناوٹی اسمبلیوں میں پہنچتی ہے‘ اس میں پہل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور اسے وہی پالیسیاں اختیار کرنا پڑتی ہیں‘ جو فوجی حکمران‘ انہیں بنا کر دیتا ہے اور فوجی حکمرانوں کی بنائی ہوئی پالیسیوں کے دو طویل ادوار کا ہمیں بہت تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ جنرل ضیاالحق کو کن خوبیوں کی بنا پر مسلح افواج کا سربراہ بنایا گیا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنا بڑا مشکل ہے۔ انہوں نے مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دے کر‘ قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کیا۔ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کر کے‘ ہمارے معاشرے کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ ہیروئن کے جس کاروبار سے‘ پاکستانی معاشرہ بڑی حد تک محفوظ تھا‘ جنرل ضیا نے افغان جنگجوﺅں کو ہر طرح کی آ زادی مہیا کر کے‘ ہمارے ملک میں ہیروئن اور ناجائز اسلحہ عام کر دیا۔ نتیجے میں ناجائز دولت نے ہماری تجارت اور معیشت دونوں کو بری طرح متاثر کیا۔ بغیر سوچے سمجھے اور عدم منصوبہ بندی سے شروع کی گئی ایک جنگ‘ ہمارے گلے پڑ گئی۔ افغانستان میں تو وہاں کی حکومت کا کیا بگڑنا تھا‘ وہ تو پہلے ہی عدم مرکزیت کا شکار تھا۔ لیکن ہمارے ملک میں بدامنی پھیلتی گئی۔ جس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کے حسین اور خوشحال ترین شہر کراچی کی تباہی ہے۔ یہ صنعتی شہر ‘ جو پورے ملک کے بیروزگاروں کو روزی روٹی مہیا کرتا تھا‘ ایسی بدامنی کا شکار ہوا کہ پاک فوج کو میدان میں ‘لانا پڑا۔ رینجرز نے حالات کو کافی بہتر بنا دیا ہے لیکن جو تباہی اس شہر پر نازل ہوئی‘ وہ بہت بڑی تھی۔کونسا جرم ہے جو کراچی میںعام نہیں تھا؟ بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ‘ اغوا برائے تاوان‘ گاڑیوں کی چوری‘ ڈاکہ زنی‘ منشیات فروشی‘ غرض تمام برائیاں عام تھیں۔ابھی تک وہاں کے سیاسی حالات شہر کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ سیاسی حکومت ‘ معاملات کو سلجھانے میں ناکام ہے۔ رینجرز سیاسی معاملات میں دخل نہیں دے سکتی۔ سیاست کی لسانی تقسیم نے شدید تلخیاں پیدا کر رکھی ہیں۔ کراچی کی سماجی زندگی میں امن اور ہم آ ہنگی پیدا کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ جب تک تمام سیاسی قوتیں مل کررینجرز کی مدد نہیں کرتیں‘ کراچی کے امن کی دوبارہ بحالی بہت مشکل نظر آ تی ہے۔ عوام امید بھری نظروں سے فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں۔جتنی مہارت اور تیزرفتاری سے رینجرزنے کراچی کے تباہ حال معاشرے میں ٹھہراﺅ لانا شروع کیا ہے‘ اس سے امیدیں تو پیدا ہو رہی ہیں۔ یقین سے آ ج بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی کی بدامنی نے پورے پاکستان کو متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر افغانستان سے آ نے والے اور مقامی دہشت گردوں نے ‘مل کر جرائم کو جس طرح پھیلایا ‘ پورے ملک میں ان پرقابو پانا‘انتہائی صبر‘ تحمل اور طاقت کے محتاط استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ پاک فوج نے مختصر سے عرصے میں جو استحکام اور اعتماد پیدا کر دیا ہے‘ اسے دیکھ کر حوصلہ ہوتا ہے کہ اگر بحالی امن کی رفتار یہی رہی‘ تو انشااللہ ہم بہت جلد امن کی منزل تک پہنچ جائیں گے۔
ہمارا بنیادی مسئلہ دہشت گرد تھے جنہیں بھارت سمیت گردوپیش کے کئی ملکوں سے اسلحہ‘ مالی امداد اور تخریب کاری کی تربیت دی جاتی تھی۔ یوں تو خیبرپختونخوا میں متعدد فوجی آ پریشن کئے گئے۔ لیکن ان میں سیاسی عزم و ہمت اور فوج کی کامیاب حکمت عملی دیکھنے میں نہیں آ ئی تھی۔ بارہا محدود فوجی آ پریشن ہوئے۔ جن میں سب سے بڑا سوات کا تھا۔ لیکن نتیجے میں امن حاصل نہ ہو سکا۔ ہر فوجی آ پریشن ادھورا ہی چھوڑنا پڑا۔ صرف سوات کا آ پریشن کسی حد تک کامیاب کہا جا سکتا ہے۔ لیکن دہشت گرد اس سے بچ کر بھی افغانستان میں اپنی کمین گاہیں بنانے میں کامیاب ہو گئے اور ملافضل اللہ نے ملک سے باہر بیٹھ کر سوات کے علاقے میں‘ دہشت گردی کے واقعات جاری رکھے۔ سیاسی قیادت اس صورتحال میں مایوسی کا شکار ہونے لگی اور وہ اپنے ملک کی طاقت اور سائز کو نظرانداز کر کے‘ دہشت گردوں سے مذاکرات پر مائل ہو گئی۔ ظاہر ہے‘ اس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے حوصلے اتنے بڑھے کہ انہوں نے حکومت کو باضابطہ مذاکرات کے قابل بھی نہ سمجھا اور حکومت پاکستان نے مذاکرات کے لئے جو وفد تشکیل دیا‘ اس میں طالبان کی طرف سے جو نمائندے آ ئے‘ وہ بھی درحقیقت انہی کے ترجمان تھے۔ ظاہر ہے‘ یہ مجوزہ مذاکرات آ غاز سے پہلے ہی انجام کو پہنچ گئے۔ یہی وہ صورتحال تھی‘ جس میں فوج کی نئی اور بہادر قیادت نے خود آ گے بڑھ کر‘ دہشت گردوں سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔ چند ہی روز میں آ پریشن کا منصوبہ تیار کر کے‘ میرانشاہ میں ان کے سب سے بڑے مرکز پر حملہ کر دیا اور ان کے برسوں میں تعمیر کئے گئے مضبوط ٹھکانوں سے دہشت گردوں کو بھگا کر ان کی خفیہ تعمیرات منہدم کر دی گئیں۔یہی میرانشاہ تھا‘ جس کے بازاروں میں پاکستان کے پرامن شہریوں کو موت کی عبرتناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ بازاروں اور چوراہوں میں ان کی تذلیل کی جاتی تھی۔ ان کے سرکاٹ کر زمین پر پھینکے جاتے تھے۔ لاشیں بازار میں لٹکا دی جاتی تھیں۔ یہ تھی وہ خوفناک صورت حال‘ جب پاک فوج نے پیش قدمی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے بتا دیا کہ ریاست کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ اور غیر ریاستی عناصر اس کے مقابلے میں کتنی طاقت رکھتے ہیں؟ میرانشاہ کے ان معرکوں میں فوج کی تیزرفتار کامیابیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ ان کا مرکز ختم ہو گیا۔ وہ یا تو افغانستان بھاگ گئے یا پاکستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ انہوں نے انتقامی کارروائیوں کے لئے پورے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات شروع کر دیئے۔ وہ اتنے بڑے دھماکے کرنے لگے‘ جن میں سینکڑوں بے گناہ شہریوں کو اذیت ناک موت سے دوچار ہونا پڑا۔ دہشت گردوں کی آ خری کارروائی پشاور کے آ رمی پبلک سکول میں کی گئی‘ جسے میں انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ وحشیانہ کارروائی سمجھتا ہوں۔ معصوم اور نہتے بچوں کو جس طرح نشانے لگا کر ‘ گولیوں کا ہدف بنایا گیا‘ اسے پشاور ہی نہیں‘ پورے پاکستان کے عوام کبھی نہیں بھول سکتے اور عالمی رائے عامہ بھی اس دلخراش واقعہ پر پاکستانی عوام کے حق میں کھڑی ہو گئی۔ وہ بزدل اور منافق سیاسی عناصر‘ جو دہشت گردوں سے خوفزدہ تھے‘ اس وحشیانہ اقدام کے زیراثر ‘ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی پر متفق ہو گئے۔ ان معصوموں کے خون سے پوری قوم آتش انتقام میں بھڑک اٹھی۔ اسی سانحے کے نتیجے میںپاکستان کا ایک ایک شہری‘ دہشت گردوں کے خلاف کھڑا ہو گیا اور پھر عوام اور فوج کے تعاون سے انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کرقانون کے شکنجے میں لایا گیا اور اگر وہ گرفت میں نہیں آ ئے‘ تو انہیں موقع پر ہی موت کے گھات اتار دیا گیا۔ ایک وہ فوجی آ پریشن تھے‘ جو باجوڑ‘ سوات اور خیبروغیرہ میں کئے گئے اور ایک ضرب عضب کاآپریشن ہے کہ جب سے شروع ہوا ہے‘ دہشت گرد چوہوں کی طرح چھپتے پھر رہے ہیں اور انہیں سرچھپانے کی جگہ نہیں مل رہی اور نہ ہی انشاءاللہ کبھی ملے گی۔ جس طرح 6ستمبر کی جارحیت نے‘ پاکستانی عوام اور فوج کو یکجا کر دیا تھا۔ آ پریشن ضرب عضب نے بھی فوج اور عوام کو یکجا کر دیا ہے۔ فوج نے اتنی جلدی‘ کامیاب اور موثر کارروائیاں کر کے‘ جو حیرت انگیز نتائج حاصل کئے ہیں۔ انہیں دیکھ کر عوام محفوظ مستقبل کے لئے‘ فوج سے امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔ رائے عامہ کے تمام جائزے‘ کم و بیش اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے عوام کی مایوسیوں کو ہمت اور حوصلوں میں بدل دیا ہے۔ ان کی عوامی مقبولیت ماضی کے ہر لیڈر سے زیادہ ہو چکی ہے۔ دہشت گردی کی کمر ٹوٹتے دیکھ کر‘ عوام یہ امیدیں لگا بیٹھے ہیں کہ اب فوج کرپشن پر بھی حملہ کرے گی اور سچی بات ہے‘ جب تک کرپشن کو ضرب عضب کے جذبے سے ختم کرنے کا فیصلہ نہیں ہوتا‘ ہم سیاسی اور اقتصادی استحکام سے محروم رہیں گے۔ حالیہ فوجی کامیابیاں‘ اس وقت تک نتیجہ خیز نہیںہوں گی‘ جب تک دہشت گردی کی طرح کرپشن کے خلاف بھی فیصلہ کن جنگ شروع نہیں کی جاتی۔