وقت کی چال میں کچھ دیوانوں اور مجذوبوں کی سی کیفیت ہے کبھی طوفانوں سے زیادہ تیز اور کبھی چیونٹی سے زیادہ سست اور پھر کبھی بے جانوں کی طرح بے حس و حرکت، خاموش، اٹل۔ یہ رفتار کبھی تو برسوں کو لمحے بنا دیتی ہے اور کبھی لمحوں میں برسوں کی برکت اور کشادگی پیدا کر دیتی ہے اور یوں برسوں اور قرنوں کی تگ و دو کے بعد بھی ہم وہ نہیں بن پاتے جو چند لمحوں میں بن جاتے ہیں۔ اسی طرح کا لمحہ ہماری زندگیوں میں 6ستمبر کی اندھیری رات میں سے نکل کر ایک چنگاری کی طرح ہماری زندگیوں میں داخل ہوا۔ یہ لمحہ منٹوں، گھنٹوں اور دنوں میں تبدیل ہوتا ہے اور 6ستمبر سے 22ستمبر تک آفتاب بن کر ہر پاکستانی کے سینے میں سما گیا اور اس روشنی میں ہم نے اپنے آپ کو پایا اور اپنے آپ کو پہچانا۔ ہم نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر ایک کے اندرونی وجود میں ایک سپاہی چھپا ہوا ہے۔ اس سپاہی نے دشمن کی للکار سنی اور اس للکار کے جواب میں فضا میں ہر طرف گونجتا ہوا جہاد کا نعرہ سنا اور وہ مجاہد بن کر میدان میں آ گیا اور دیکھتے دیکھتے ہمارے وطن کا چپہ چپہ مجاہدوں کی سرزمین بن گیا۔ ہر محاد جہاں بھی وہ ہے محاذ جنگ کے مورچوں میں، شہر کے گلی کوچوں میں ، کھیتوں اور کھلیانوں میں، گھر میں، بازار میں، مسجد، مدرسے اور خانقاہ میں، سفر میں حضر میں، اٹھٹے بیٹھے، سوتے جاگتے، اس ہتھیار سے اپنی جنگ لڑ رہا ہے جو اس کی دسترس میں ہے۔ ہاتھ، پیر، زبان، دل، دماغ سب حق و باطل کی پیکار میں مصروف ہیں۔
اس پیکار کی آنچ میں تپ کر جو پاکستانی کردار ابھرا ہے اس کے احساس اور عمل پر نور ایمانی کا سایہ ہے۔ وطن کے ذرے ذرے سے والہانہ محبت، اسے اللہ کی سپرد کی ہوئی امانت سمجھ کر اس کے تحفظ کیلئے جاں نثاری اور جاں سپاہی کا بے پایاں شوق، حق اور صداقت پر سچا ایمان، تائید ایزدی اور اس تائید کی بدولت فتح کامل کا یقین، اپنے فرض منصبی کو جہاد کے احساس کے ساتھ پورا کرنے کا عزم اس کے کردار کے جوہر ہیں۔
6ستمبرسے 22ستمبر تک کے سترہ دن ہمارے بے دین، بے ایمان اور بے ضمیر دشمن کیلئے بھی اہم ہیں اور ہمارے لئے بھی۔ اس کیلئے یوں کہ دنوں کے ایک ایک لمحے پر اس کی شکست اور روسیاہی کی داستان مرقوم ہے اور ہمارے لئے یوں کہ اس کی یہ شکست اور روسیاہی ہماری سرخروئی اور فتح کی علامت بن کر سامنے آئی ہے۔ صرف اس محاذ پر نہیں جہاں دشمن کے زعم باطل نے اپنی جیت کے جھنڈے گاڑنے چاہے تھے بلکہ بین الاقوامی سیاست کے محاذ پر اور حق و انصاف حسن اخلاق اور حسن عمل کے محاذ پر اور سب سے بڑھ کر خود اپنی ذات کے محاذ پر۔ ہماری سب سے بڑی فتح وہ ہے جو اللہ نے ہمیں خود ہم پر دی ہے۔ ہم نے اپنے آپ میں سے نکل اپنے آپ کو جانا ہے۔ آج یہ بات ہم پر کھلی ہے کہ ہمارا وجود ہماری ملت کا وجود ہے، آج ہم سے ہر ایک کا وجود کہ ہم سب پاکستانی ہیں ہر دوسرے پاکستانی کے وجود میں گم ہے اور ہم سب کا وجود مل کر ایک اہم تر ایک عظیم تر وجود میں گم ہو گیا ہے اور یہ گم گشتگی ہماری ہر فتح سے بڑی فتح ہے۔
فکر نہ جانے کب سے پاکستانیوں میں ایک مشترک طرز احساس کی جستجو میں سرگرداں تھا، وہ گوہر مشترک اس خارجی دنیا سے گزر کر ہر پاکستانی کے سینے میں اس کی شخصیت کی گہرائیوں میں چھپا ہوا ملا۔ ہم نے پہلی مرتبہ محسوس کیا کہ اس طرز احساس کی تعمیر فکر اور جذبے کے اشتراک اور امتزاج سے ذہن سے اٹھنے والی منطق کی لہر اور دل سے پہم اٹھنے والی جذبے کی دھڑکنوں کے میل ملاپ سے ہوئی ہے۔ ہماری آرزوﺅں کی تکمیل صرف دین اور اخلاق کے رشتے اور واسطے سے ہوتی ہے اور اپنے وطن سے محبت کی جو چنگاری ہم میں سے ہر ایک نے یکساں اپنے سینے میں چمکتی دیکھی ہے اس کے سوز کا منبع عرب کے ریگزار ہیں۔ ہمیں اب تک کسی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا تھا کہ ہمارا کلچر کیا ہے؟ آج ہمیں اس سوال کا جواب مل گیا ہے۔ ہر پاکستانی کے کردار اور سیرت کی یہ مشترکہ خصوصیتیں اور اس کے طرز احساس کا یہ اخلاق و روحانی رنگ ہمارے کلچر کی اساس ہے کلچر کی اسی اساس پر ہمارے ادیب شاعر اور فن کار ہمارے فلسفی اور ہمارے مورخ، ایسے ادب، ایسے فن، ایسے فکری نظام اور ایسی تاریخ کی عمارت تعمیر کریں گے جس کا رابطہ ایک طرف تو اس زمین سے ہو گا جسے ہماری حرارت ایمانی نے اپنے دشمن سے بچایا ہے اور دوسری طرف اس فکر اور اخلاقی روایات سے جس کی جڑیں اب سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے غار حرا میں پھوٹی تھیں۔ داخلی انقلاب، ہر خارجی انقلاب کا پیش خیمہ بنتا ہے، ایک بار پھر اس کی بنا رکھی گئی ہے۔
کتنے اہم اور کتنے یادگار ہیں ہماری تاریخ کے یہ سترہ دن، الجھی ہوئی ڈور سلجھ گئی ہے، اس کا ایک سرا ادیب اور فن کار کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا فلسفی کے ہاتھ میں ہے جسے اب خدا کے قائل ہونے کی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔