خبرنامہ

پینسٹھ کی جنگ کے ادبی ہیرو صوفی تبسم…زاہد مسعود

میں ان خوش قسمت بچوں میں سے نہیں ہوں جو صوفی تبسم کو ٹوٹ بٹوٹ کے حوالے سے جانتے پہچانتے ہیں تاہم میں نے ان کا نام بچپن میں ہی سن لیا تھا۔ میرے ایک تایا تھے جو 1934 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے بلکہ سٹوڈنٹ یونین کے سیکرٹری بھی تھے۔ ہوا یوں کہ دوران تعلیم ان کو ٹی بی کا مرض لاحق ہوگیا۔ اس زمانے میں علاج معالجہ کی کوئی صورت نہ تھی۔ چنانچہ جس روز ان کی گریجویشن کے امتحان میں نمایاں حیثیت سے کامیابی کا پروانہ ملا‘ ان کا جسدخاکی گھر کے صحن میں پڑا تھا۔ ان کے اتالیق قاضی اعظم صاحب نے ان کی کچھ چیزیں تا عمر سنبھال کر رکھی تھیں جن میں ایک پھٹا پرانا بلینرر، گورنمنٹ کالج کے بی ایس سی کے اس سیشن کے طلبا کا الوداعی گروپ فوٹو‘ ایک چھوٹی طبع شدہ ڈائریکٹری بھی تھی جو انھوں نے میرے والد اور دادی کے حوالے کی۔ اس ڈائریکٹری میں صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کا نام درج تھا وہ غالباً1934 میں گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھے اور مجلس فارسی کے صدر بھی تھے۔ یہ صوفی تبسم سے میرا پہلا تعارف تھا۔ اس کے بعد پرانے نغموں میں نسیم بیگم کی گائی ہوئی ان کی غزل’’سوبار چمن مہکاسو بار بہار آئی‘‘ ٹوٹ بٹوٹ اور پھر 1965کی جنگ میں ان کے لکھے ہوئے اور نور جہاں کے گائے ہوئے لافانی گیت۔۔۔ 1965کی جنگ میں تو صوفی صاحب ایک ادبی ہیرو کے طور پر نمایاں ہوئے۔ وہ ریڈیو پاکستان کے ساتھ بطور سٹاف آرٹسٹ وابستہ تھے۔ مادام نور جہاں ملی جذبات سے معمور ہوکر ریڈیو پاکستان پہنچ گئیں۔ صوفی صاحب ملی نغمہ لکھتے‘ اسی وقت اس کی دھن بنتی اور تھوڑی ہی دیر میں وہ ترانہ ہوا کی لہروں کے دوشن پر سوار محاذ جنگ پر وطن کی خاطر لڑنے والے مجاہدوں کے دلوں کو گرمادیتا۔ میڈیا اور ثقافت کے محاذ پر صوفی صاحب اور مادام نورجہاں کی وجہ سے پاکستان نے 65 کی جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ وہ ترانے نہ صرف سپاہیوں کا خون گرماتے بلکہ عام شہریوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتے۔۔

؂ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں

؂ ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے

جیسے ملی نغمے 65ء کی جنگ کے باب کا عنوان بن گئے۔ آج بھی جب ہرسال چھ ستمبر آتا ہے تو اس کا استقبال انہی ترانوں سے کیا جاتا ہے جو اس خوبصورت دور کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔میں نے آخری بار صوفی صاحب کو پی ٹی وی پر اقبال کے کلام کی تفہیم کرتے دیکھا اور اس کے بعد اس وقت جب وہ اپنے سمن آباد والے گھر میں دنیا سے ناتا توڑ کر سکون کی نیند سو رہے تھے۔

علمی و ادبی حلقوں میں صوفی صاحب کے بارے میں محبت بھرے تذکروں نے میرے ذہن میں ان کا ایک ایسا نقش قائم کیا جو ایک انتہائی پڑھے لکھے‘ روشن خیال اور متحرک بزرگ‘ ادبی شخصیت کے طور پر اب تک تازہ ہے اور آنے والا ہر دن ان کی عظمت کے گراف کو بلند کرتا ہے۔ صوفی صاحب نے اپنی محنت سے حاصل کردہ علم کو ’گھرانوں کی گائیکی‘ کی طرح اپنے تک محدود نہیں رکھا تھا۔ انہوں نے تشنہ گان علم وادب کا بہت خیال رکھا اور آنے والی کئی نسلیں ان سے استفادہ کرتی رہیں۔ فیض احمد فیض ٹیکنیکل شعری معاملات میں صوفی صاحب سے مشاورت کرتے تھے۔ بلکہ بقول کشور ناہید ان کی فارسی دانی پر علامہ اقبال کو بھی اعتبار تھا ۔ بہت سوں نے صوفی صاحب کی علمیت اور مہارت سے استفادہ کیا۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ بیشتر استفاد ہ کنند گان صوفی صاحب کو فراموش کرگئے بلکہ بعض تو ان کا نام بھی لینے سے ’احتیاطاً‘ گریز کرنے لگے

تاکہ ان کی خود ساختہ ادبی حیثیت پر کوئی حرف نہ آئے۔

65kijangk.jpg

صوفی صاحب کو بھر پور طریقے سے یاد کیا تو دو لوگوں نے ایک کشور ناہید اور دوسرے آفتاب احمد خاں نے۔ کشور ناہید کی وابستگی صوفی صاحب کے ساتھ اس قدر زیادہ تھی کہ اس نے اپنی تمام کامرانیوں کا کریڈٹ تحریراً صوفی صاحب کو دیا جو لائق تحسین بات ہے۔ آفتاب احمد خاں نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’بیاد صحبت نازک خیالاں ‘‘میں گورنمنٹ کالج لاہور اور نیازمندان لاہور کے حوالے سے دیگر شخصیات کے علاوہ صوفی تبسم صاحب کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ یہ دونوں خاکہ نما مضامین انتہائی خوبصورت ہیں اور صوفی صاحب کی شخصیت کے کئی پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں۔ صوفی صاحب کو یاد کرنے والوں کی شہر میں کمی نہیں۔ اگر انہیں یاد کرنے میں سستی کرتے ہیں تو اہل ادب جبکہ فلم‘ ریڈیو، گیت اور موسیقی کے ساتھ منسلک لوگ آج بھی صوفی صاحب کی یادوں سے معمور پھرتے ہیں۔ فریدہ خانم سے ہی بات کرکے دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔ صوفی صاحب کے ذکر پر ان کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔

حلقہ ارباب ذوق لاہور میں امجد طفیل کا کریڈٹ ہے کہ وہ گم گشتہ ادبی شخصیتوں کو یاد کرنے کا اہتمام کر رہاہے۔ صوفی تبسم اکیڈمی بھی اپنے منشور میں تھوڑی سی تبدیلی لائے اور سال میں ایک ’’مجلس اقبال‘‘ کرنے کے بعد معاملہ ’’قوالوں‘‘ پر نہ چھوڑے ‘ان کے کرنے کے بہت سے کام ہیں‘ صوفی صاحب کے معرکۃالآرا گیتوں اور غزلوں کو جمع کرکے کوئی البم جاری کیا جاسکتا ہے۔ صوفی صاحب کے بارے میں بچے کچھے لوگوں کی یادوں کو ریکارڈ کرکے ایک اچھی کتاب شائع کرائی جاسکتی ہیں۔ تاکہ سند رہے۔۔۔۔۔۔ اقبال پر ان کے لیکچر تلاش کیے جاسکتے ہیں اور ان کی اشاعت کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے ڈھیروں کام کئے جاسکتے ہیں۔ ٹوٹ بٹوٹ کی آڈیو کیسٹ کے بعد وڈیو کیسٹ بھی مارکیٹ کی جاسکتی ہے۔ صوفی صاحب کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم بنائی جاسکتی ہے اور یہ تو فوزیہ تبسم کا گھریلو معاملہ ہے۔ وہ کئی ڈراموں کی مصنف اور ڈائریکٹر ہیں اور حتیٰ کہ ان کے شوہرآغا شاہد جو ڈرامہ’’ اج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ میں وارث شاہ کا کردار ادا کرکے دیگر ناظرین کے علاوہ فوزیہ تبسم سے بھی داد لے چکے ہیں۔۔۔۔۔۔

صوفی صاحب کی یاد میں کمی لاہوری کلچر کی تباہی سے منسلک ہے۔ کمرشل ازم سب کچھ کھائے جارہا ہے اورہم سب مزے سے دیکھ رہے ہیں۔ جدیدیت کی ’’خود سوزی‘‘ میں سینہ بہ سینہ پنپنے والے اقدار کی منتقلی کے نظام کا خاتمہ بھی اس کی وجہ ہے۔ یہ ایک طویل اور لاحاصل موضوع ہے لہٰذا اشارہ کرنا ہی کافی ہے۔
mkslucky786@yahoo.com

حوالہ چھ ستمبرکا

محمدرمضان گوہر

حمیّت اور یک جہتی حوالہ چھ ستمبر کا

بتاتا غیرتِ ملّی حوالہ چھ ستمبر کا

اسی دن دشمنِ بے دین نے ہم کوپکارا تھا

ہماری شان ہے قومی حوالہ چھ ستمبر کا

یہ لالے اور بنیے دیس کے دشمن ہوئے آخر

ہماری سمت دشمن نے بہت حملے کئے آخر

بزعمِ خویش یہ کثرت کے بل پر دندناتے تھے

جواب ان کو اسی انداز میں ہم نے دیئے آخر

ہر اک بچہ، جواں، بوڑھا وطن کے کام آیا تھا

سپاہِ قوم نے بھی ولولہ اپنایا دکھایا تھا

تھے ہر اِک موڑ پر دشمن پہ ہم چھائے ہوئے گوہر

محبت اور اخوت کا مثالی دَور آیا تھا

لڑے تھے ہم چونڈہ پر بڑے ہی جوش و جذبے سے

اگرچہ سلسلہ در سلسلہ تھے ٹینک دشمن کے

ہماری فوج نے بھی جرأتِ مومن دکھائی تھی

وطن کے لوگ بھی دشمن پہ سینہ تان کر نکلے

ارادہ بھارتی سینا کا تھا لاہور پر قبضہ

کہ جم خانے کلب میں بیٹھ کر پھر عیش کرنے کا

نہیں معلوم تھا ان کو کہ ہم ایمان والے ہیں

کہ ان پر چھاگیا تھا اِک ہماری فوج کا دستہ

بتایا تھا یہ دشمن کو کہ ہم جذبے سے رہتے ہیں

پڑے جو وار بھی ہم پر وہ سینوں پر ہی سہتے ہیں

تمہاری توپ تلواروں سے ڈر سکتے نہیں مسلم

ستمبر کے حوالے سے یہی بس تم سے کہتے ہیں